جیالے کدھر کھڑے ہیں؟


کچھ روز پہلے پیپلز پارٹی کے جلسے میں سابق صدر آصف علی زرداری رقص کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔ ساتھ بلاول کھڑا تھا، شیری رحمن تھیں، وقار مہدی تھے، بہت سے دوسرے سینئر لیڈر موجود تھے اور زرداری صاحب بے خودی میں جھومے جا رہے تھے۔ بہت طویل عرصے بعد ایسی کوئی ویڈیو نظر آئی جس میں پیپلز پارٹی اپنے روایتی انداز میں دکھائی دی۔ دیکھیے بہت سیدھی سی بات ہے، وقت کی چال ہے کہ آج وہ لوگ بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے پہ مجبور دکھائی دیتے ہیں‘ جو دہائیوں سے پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے۔ پیپلز پارٹی کا دامن اس وقت کسی بھی باغیانہ سیاست یا انٹیلیکچوئل پن سے خالی محسوس ہوتا ہے۔ چلیے یہ بات بھی ایک طرف، عوامی نعرہ بھی ان کے پاس فی الوقت کوئی ایسا نہیں جو زبان زد عام ہو، تو لوگ کہاں جائیں؟ مثال کے طور پہ اگر ‘مجھے کیوں نکالا‘ کا سلوگن دیکھا جائے تو باوجود حد سے زیادہ مذاق اڑنے کے، وہ میاں نواز شریف کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ کسی دہی بھلے کی ریڑھی پہ کھڑے ہو جائیں اور اس سے پوچھ کے دیکھ لیجیے کہ نواز شریف کو نکالا کیسے گیا، یا کیوں نکالا گیا یا کس نے نکالا۔ ہر سوال کا جواب وہ نہایت تفصیل سے دے گا۔ ایسا آپ کے ملک میں پہلی بار ہوا ہے!

نواز شریف صاحب کی چلائی گئی اس روایت سے پہلے ہوتا یہ تھا کہ بڑے لیڈروں میں سے کوئی بھی ایک آدھ باغیانہ بیان دیتا تھا اور بیرونِ ملک کی ٹکٹ کٹا کے روانہ ہو جاتا تھا۔ جو باہر رہتے تھے وہ بھی بعد میں معافی تلافی کرکے اپنا دھندہ برابر کر لیا کرتے۔ اس بار گیم الگ ہوئی۔ جب میاں نواز شریف اسلام آباد سے بائی روڈ واپس آئے تو اس وقت ن لیگ کے بہت سے مہرے ان کے ساتھ نہیں تھے لیکن وقت نے سب کچھ بتا دیا۔ عوامی سیاست کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں عوام کے بیچ رہنا بھی پڑتا ہے۔ لیڈر ایک بار اس سمندر میں چھلانگ لگا لے اور اسے تیرنا بھی آتا ہو تو موجیں خود بخود اس کے لیے راستہ چھوڑتی چلی جاتی ہیں۔ یہی نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ باوجود تمام تر مخالفتوں کے، انہوں نے قدم اٹھایا اور جب تک وہ لاہور پہنچے ”مجھے کیوں نکالا‘‘ ایک وائرل نعرہ بن چکا تھا۔ پھر میاں صاحب کے کریڈٹ پہ دوسری بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو پیپلز پارٹی کے نظریاتی ووٹروں کو مشکل میں ڈال دیتی ہیں۔

تو باوجود یہ سب کچھ ہونے کے ایک بات بڑی حیران کن ہے۔ جہاں کہیں وہ سندھی گانا بجتا ہے، دلے تیر بجا الے… جیالے کا، پرانے ووٹر کا دل وہیں کھچا چلا جاتا ہے۔ بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت سامنے زرداری یا بلاول نہیں ہوتے، اس وقت بھٹو کی لیگیسی کو آنکھیں ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں، اس وقت دماغ کے پردوں پہ بے نظیر بھٹو کی یادیں جگمگا رہی ہوتی ہیں، اس وقت یاد آتا ہے کہ یہ کیسا بھرا پُرا خاندان ہوتا تھا اور آج کتنے نگ باقی رہ گئے ہیں۔ اس جلسے میں آصف علی زرداری جو ڈانس کر رہے تھے وہ کسی اور گانے پہ تھا لیکن وہ جو چہرے تھے، وہ جو ماحول تھا‘ وہ بہت عرصے بعد نظر آیا۔ جیالا کچھ بھی نہیں مانگتا، وہ تو بس لیڈروں کو دیکھ دیکھ کے خوش ہوتا ہے، یہ کوالٹی صرف پیپلز پارٹی کے جیالوں میں ہے اور اب تک موجود ہے۔ اس کی وجہ بڑی سالڈ ہے۔ بھٹو سے پہلے کسی لیڈر نے کارکنوں کو ان کے ہونے کا احساس نہیں دلایا تھا۔ بھٹو کی جو چیزیں اب، بہت بعد میں خامیاں نظر آتی ہیں وہ اس وقت کلاسیکل خوبیاں سمجھی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ اداروں کو قومی تحویل میں لینا ہو یا زرعی اصلاحات ہوں، لوگوں کو ان سب میں اپنا سنہرا مستقبل دکھتا تھا۔ انہیں لگتا تھا کہ ہاں یار اب شاید انسانی برابری کے خواب کچھ سچے ہونے والے ہیں، بڑے بڑے جاگیردار بھٹو سے شدید ناراض ہوئے لیکن کمی کمینوں کے دلوں میں وہ گھر بنا گیا۔ زرداری ایسا کچھ نہیں کر سکے۔ آئینی ترامیم، صوبوں کو حق دلوانا یہ سب چیزیں سر آنکھوں پہ لیکن یار ورکر اور ووٹر کہاں یہ سب دیکھتا ہے؟ وہ تو دو چار نعرے، ایک دو بھنگڑے اور دس بارہ جلسوں کی مار ہوتا ہے۔ جیالا دل سے چاہتا ہے کہ بی بی کا بیٹا ہم سے آ کے گلے ملے، ہمارے پاس بیٹھے، سائیں زرداری ہمارے بیچ میں آئے، اس کی بیٹیاں آئیں، کچھ بھی نہ کریں، کوئی وعدے نہ ہوں بس وہ اپنا ہونا محسوس کروا دیں کہ لو بھئی یہ ہمارا نانا تھا، یہ ہماری ماں تھی اور یہ آج ہم سب ہیں، تمہارے بیچ میں ہیں، تمہارے ساتھ ہیں۔

پیپلز پارٹی کو یہ ایج شروع سے حاصل ہے۔ میاں صاحب یا شہباز شریف یا عمران خان تصویر میں کسی بوڑھی عورت سے اپنے سر پہ ہاتھ رکھوائے دعائیں لیتے نظر آئیں گے تو وہ بات نہیں بنتی جو بلاول، آصفہ، بختاور، بی بی یا بھٹو صاحب کی تصویروں میں بنتی تھی (بلکہ اسی چیز کو الیکشن کیمپین میں ”بھٹو کی بیٹی آئی ہے‘‘ والا گانا بنا کے کیش بھی کیا گیا) بات اسی تان پہ ٹوٹتی ہے کہ پارٹی کا منشور یہ ہوا کرتا تھا کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں۔ یہ بات شاید اب میاں صاحب جان چکے ہیں لیکن وہ بھٹو والا کیرڑما کہاں سے لائیں؟ بھٹو تو وہ آدمی تھا جو بھرے جلسے میں اپنی عادتوں کا اعلان کر دیا کرتا تھا۔ آج ایسی پوزیشن نہ میاں صاحب کی ہے نہ زرداری صاحب کی۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ پارٹی اپنے تمام روایتی موقف چھوڑ چکی ہے۔ مزدوروں کی بات کرنا، عوام کے دکھڑے سننا، گھر گھر جا کے الیکشن کیمپین چلانا، ہر شہر میں بڑے بڑے جلسے کرنا، بڑے لیڈروں سے کونسلر لیول تک مضبوط چین آف کمانڈ ہونا کچھ بھی نہیں رہا۔ لاہور والے پیپلز پارٹی کو موچی دروازے میں بیٹھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کراچی والے بلاول ہاؤس کی جگہ لیاری کی گلیوں میں بلاتے ہیں لیکن بس ایک دن معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ سولہ بڑی بڑی گاڑیوں گزریں، عوامی لیڈر شہر میں آیا، دو گھنٹے بعد وہی گاڑیاں گزریں تو لیڈر سلاما لیکم ہو گئے۔

لے دے کے پیپلز پارٹی کے پاس فی الحال سب سے بڑا کریڈٹ میثاق جمہوریت کا تھا ( بائے دا وے جیالوں کو وہ بھی سمجھ نہیں آتا اور حق پہ نہیں آتا تھا) لیکن ایسا لگتا ہے کہ زرداری صاحب اس سے بھی دامن چھڑانے کو بے تاب ہیں۔ ٹیکنیکلی یہ علم ہوتے ہوئے کہ میثاق جمہوریت ہی کی وجہ سے اوپر تلے لنگڑی لولی دو جمہوری حکومتیں ٹوٹے پھوٹے ہاتھ پیروں کے ساتھ اپنا وقت پورا کرنے جا رہی ہیں، پھر بھی اگر کوئی فریق اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور غیر منتخب لوگوں کی موسمی سیاست کا ساتھ دیتا ہے تو یہ بہت بڑا ظلم ہو گا۔

قصہ مختصر، بھائی بلاول، سائیں زرداری، بی بی آصفہ، بی بی بختاور، کچھ تو کریں، ووٹر تو آپ لوگوں کو اپنے درمیان دیکھ کے بھی خوش ہو جاتا ہے اور اس کی نسلیں یاد رکھتی ہیں کہ ہمارا لیڈر ہمارے پاس آیا تھا۔ دیکھیے الیکشن بڑے بڑے نام نہیں جتاتے، الیکشن ایک لہر جتوا جاتی ہے۔ وہ لہر ایک مرتبہ بھٹو صاحب کی پھانسی سے پیدا ہوئی، ایک بار بے نظیر بھٹو کا قتل وہ لہر پیدا کروا گیا لیکن اس بار وہ دونوں واقعے، وہ لیگیسی الیکشن جتوانے کے لیے کافی نہیں ہو گی۔ عوامی بیداری کی، آمروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی، پریشر گروپس کی سیاست کو گلے لگانے کی بجائے مسترد کرنے کی، کوئی بھی لہر، کوئی بھی ایک سٹینڈ اس وقت شدت سے پارٹی کو درکار ہے، جو سامنے والوں کو یقین دلا سکے کہ پارٹی ابھی باقی ہے!

ویسے زرداری صاحب اگر طاہرالقادری صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں تو جیالے کدھر کھڑے ہیں؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain