شہید محبت بوٹا سنگھ کی خود کشی پر سبط حسن کا اداریہ


تقسیم کے موقع پر ایک اغوا شدہ مسلمان عورت سے شادی کرنے والے بوٹا سنگھ نے اپنی بیوی سے زبردستی علیحدہ کئے جانے پر فروری 1958 میں لاہور کے شاہدرہ ریلوے اسٹیشن پر خودکشی کر لی تھی۔ اس موقع پر سبط حسن نے ہفت روزہ لیل و نہار کی 23 فروری 1958ء کی اشاعت میں “محبت نے کاڑھا ہے ظلمت میں نور” کے عنوان سے ایک دل گداز اداریہ تحریر کیا تھا۔ یہ اداریہ ریاست، سماج اور مذہب کی چٹانوں سے سر پھوڑتی محبت کا نوحہ ہے۔ ذیل میں اس اداریے کا متن دیا جا رہا ہے۔

مقتل عشق میں ایک اور انسان سربلند ہوا معرکہ امتحان میں ایک اور نبرد آزما کو نصرت نصیب ہوئی۔ آج محبت اپنے شہید کی موت پر ماتم گسار ہے اور عشق نے کفن کا لباس پہن لیا ہے اور آدم خاکی کو خونخوار و مفسد کہنے والے فرشتوں کی پیشانیاں عرق آلود ہیں اور زندگی تعصب کی تنگ نظری اور فرسودہ رسم و رواج کی سخت گیری پر اشک فشاں ہے۔

بوٹا سنگھ (جمیل احمد) نے الفت کی خاطر گھر بار، عزیز و اقربا، ملک، مذہب سب کو قربان گاہ محبت کی نذر کر دیا۔ مگر آرزو کی شمع جلائے جب وہ ارض پاک میں داخل ہوا تو پاسبانوں نے اس راہ نورد عشق کو منزل مقصود تک پہنچنے کی اجازت نہ دی۔ چارہ سازوں نے چارہ سازی نہ کی۔ جس کو وہ اپنا سمجھ کر آیا تھا اس نے بھی ساتھ نہ دیا۔ بوٹا سنگھ کا دل خون ہو گیا۔ وہ شکست آرزو کی تاب نہ لا سکا۔ اس نے خود کشی کر لی۔

خود کشیاں اس سے پیشتر بھی ہوئی ہیں۔ عشق و محبت کی وادی میں یہ سخت مقام پہلے بھی آ چکے ہیں۔ لیکن اس سے بوٹا سنگھ کے کردار کی عظمت اور اس کی داستان الفت کی المناکی اور ابھر آتی ہے۔ بیش و کم اور سود و زیاں کی اس کاروباری دنیا میں آج بھی ایسے ”پراگندہ طبع“ اور آشفتہ سر موجود ہیں جو مصلحتوں سے سودا کرنے کے قائل نہیں۔ جو محبت کی خاطر جیتے ہیں اور محبت کی خاطر مرتے ہیں … اخلاق کے محتسب بوٹا سنگھ کی خود کشی کو بزدلی کہیں گے، اس کی موت کو حرام قرار دیں گے مگر یہ وہ لوگ ہیں جو نہیں جانتے کہ انسان زندگی جیسی پیاری اور حسین شے کو کب اور کتنی مشکل سے قربان کرتا ہے … بوٹا سنگھ ایک سیدھا سادہ دیہاتی تھا۔ نہ فلسفہ سے واقف نہ سیاست سے آگاہ۔ اس کی چھوٹی خوشیاں تھیں۔ وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اسے اپنے بیوی بچوں سے بے پناہ محبت ہے۔ اور وہ اسی محبت کے نشے میں سرشار زندگی کے دن ہنسی خوشی گزار رہا تھا مگر عزت و ناموس کے ٹھیکہ داروں کو اس کی یہ خوشی بہت بری لگی اور قانون کے خونی پنجوں نے اس کے پریم نگر کوویران کر دیا۔

اغوا شدہ عورتوں کو ان کے عزیز و اقربا سے ملانا بڑا نیک کام ہے لیکن نیکی سے اگر بدی پیدا ہونے لگے اور بسے بسائے گھر اجڑنے لگیں تو پھر نیکی نیکی نہیں رہ جاتی۔۔۔ بوٹا سنگھ کی روح پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس نیکی نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ اس نیکی کی بدولت میرے بچے یتیم اور بے سہارا ہو گئے اور میری بیوی ہمیشہ کے لیے احساس جرم میں مبتلا ہو گئی۔

المیہ کبھی خواہش اور حقیقت کے تصادم سے بنتا ہے کبھی دو سچائیوں کے آپس کے ٹکراﺅ سے۔۔۔ بوٹا سنگھ کی محبت کی سچائی اس کی بیوی کے اعزا و اقارب اور رسم و رواج سے ٹکرائی اور پاش پاش ہو گئی۔ اس تصادم میں حق پر کون تھا اور فتح کس کی ہوئی اس کا فیصلہ تاریخ بہت پہلے کر چکی ہے۔

انسان کی انسان سے محبت، رسم و رواج، رنگ و نسل سب سے بڑی صداقت ہے۔ جو لوگ خدا کو محبت، خدا کے رسول کو محبت اور اسلام کو محبت تصور کرتے ہیں۔ انسان سے محبت کرنا ان کا جزو ایمان ہوتا ہے کیونکہ جو انسان سے زیادہ انسان کے بنائے ہوئے رسم و رواج کو عزیز رکھتا ہے وہ نہ انسانیت کو برت سکتا ہے، اور نہ فلسفہ انسانیت کی روح کو پا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).