نظام تعلیم اور لیبر مارکیٹ


سردار پرویز محمود

\"Picture\"

ایم آئی ٹی کے ایک پروفیسر موصوف کی یہ بات سن کر مجھے تو اچھا نہیں لگا کہ سبق زبانی یاد کر کے امتحان میں لکھنا اب تو تعلیم میں شمار ہی نہیں ہوتا۔ یعنی جو مواد ایک کمپیوٹر مشین پر بیٹھ کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی سرچ انجن کے ذریعے چند سیکنڈز میں حاصل کیا جاسکتا ہے وہ زبانی یاد کرنے کا کیا فائدہ؟ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک مزدور پورا دن لگا کہ ایک گڑھا کھودتا ہے اور ایک مشین چند منٹوں میں اس سے بڑا گڑھا کھود دیتی ہے۔ چنانچہ گڑھا کھودنا کوئی قابلیت تو نہ ہوئی۔
دوسری طرف سلیکون ویلی میں آرٹی فیشل انٹلی جینس یا مصنوعی ذہانت پر تحقیقی کام زور و شور سے جاری ہے اور اگلے بیس سال میں ٹیکنالوجی نے کروڑوں لوگوں کو بے روزگار کردینا ہے۔ سلیکون ویلی والے کہتے ہیں کہ وہ جلد اس بات کو ممکن بنادیں گے کہ لوگوں کو بغیر کام کے بیٹھے بٹھائے بنیادی سہولیات بہم پہنچائی جائیں یعنی انہیں کام کرنے کی مجبوری نہ رہے۔ یہ آیئڈیا بہت دلفریب ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب میں لوگ مسرت سے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ شاید یہ ممکن ہوجائے کہ انہیں کام ہی نہ کرنا پڑے اور انہیں زندگی کی ساری بنیادی سہولتیں میسر آجائیں۔کام نہیں کریں گے تو لوگ کیا کریں گے؟ سلیکون ویلی والے کہتے ہیں کہ لوگ کھیلیں کودیں گے۔ سلیکون ویلی والوں نے بھی اپنا آیئڈیا فروخت کرنا ہے۔ کس قدر دلفریب خواب ہے یہ کہ انسان صرف تفریح اور کھیل کود میں وقت گزارے اور مشینیں سارا کام سنھبال لیں۔
لیکن دنیا کا یہ جنگ و جدل ، تنازعے ان سب کا کیا ہوگا؟ سلیکون ویلی والے کہتے ہیں یہ سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وسائل سب لوگوں میں برابر تقسیم ہوں اور چند لوگ ان پر قبضہ کر کے نہ بیٹھ جائیں۔
یورپ میں بے روزگاری روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ کمپنیوں کی ایک بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ انہیں مطلوبہ ہنر مند لوگ نہیں مل رہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہنر مندی کی مانگ اور تقاضوں کو بھی بدل دیا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ انجینرنگ اور بنیادی سائینسز میں پی۔ایچ۔ ڈی کی ڈگری لینے کے بعد بھی جاب ملنے میں دشواری بلکہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ خود سوچیئے کہ انجئیرنگ ساینسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی جاب نہ ملے تو پھر کیا کرے وہ انسان جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جدید سائینسی تعلیم حاصل کرنے میں صرف کردیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تعلیم کس چیز کا نام ہے؟ ہاں اس کے جواب میں بیشتر تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ جدید دور میں تعلیم تخلیقی صلاحتوں کی نشونما کا نام ہے۔ تعلیم اس انسانی ٹیلنٹ کے نشونما اور فروغ کا نام ہے جو فی الحال کسی مشین کے بس میں نہیں ہے۔ مثلاً کوئی بھی مشین اور کمپیوٹر ابھی تک تخلیقی کام نہیں کرسکتے۔ انسانی دماغ کی وہ خصوصیات جن کی نقل کوئی مشین نہیں کرسکتی۔ ان خصوصیات کی نشونما اور ترقی دور حاضر میں تعلیم مانے جانے لگی ہے۔
اب یونیورسٹیوں کی مثال لیتے ہیں۔ ولڈ رینکنگ میں وطن عزیز کی یونیورسٹیاں کس نمبر پر آتی ہیں؟ پہلی آٹھ سو یونیورسٹیوں میں شامل ہونا تو کوئی خاص قابل ذکر بات نہیں ہے۔ کیا کمی ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں ؟ کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں؟ کون سا نصاب پڑھایا جاتا ہے ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں؟ ہمارے اساتذہ کرام کو سال میں کتنے تربیتی کورسز کروائے جاتے ہیں؟ ہمارے ایک مشہور کامیڈین کے بقول اگر انگریزی بولنا تعلیم یافتہ ہونے کی نشانی ہے تو انگریز اپنے بچوں کو سکول کیوں بیجتے ہیں؟
چونکہ ہم محب وطن ہیں اس لیے ہم نے ان سب سوالات کے جواب میں اپنا دماغ دوڑایا اور کہا کہ ہمارے کتنے ہی طالب علم اسناد اور ایوارڈ حاصل کرتے ہیں اور بین الاقوامی اعزازات بھی حاصل کرتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام کسی بھی طرح کم تر نہیں ہے۔ ہم سے بحث کرنے والے صاحب بولے! ایک کلاس میں پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر والے طلبا ملک کے تعلیمی نظام کی نمائیندگی نہیں کرتے۔ مذکورہ طلبا اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ سو طلبا کی درجہ بندی میں تین یا چار طالب علم باقیوں سے زیادہ ذہین اور با صلاحیت ہوتے ہیں۔ اسی طرح سولہ کروڑ کی آبادی میں سے کچھ طلبا غیر معمولی صلاحتوں کے مالک ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ پہلے تین چار طلبا ملک کے نظام تعلیم کے اچھے اور برے ہونے کا ثبوت نہیں ہیں۔ اگر ایک جماعت کا تعلیمی معیار دیکھنا ہے تو کلاس کے اس طالب علم کا معیار دیکھنا چاہیے جس کے نمبر سب سے کم ہیں۔
یہاں یورپ میں بھی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ لیبر مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق اپنی تعلیم اور تدریس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر سیمینار کرواتے ہیں۔ طلبا برسوں تک سمر جابز کرتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کے درمیان متواتر رابطہ اور تعاون رہتا ہے تاکہ تعلیمی نظام اور لیبر مارکیٹ کی ضرورت اور مانگ میں بہت فرق پیدا نہ ہونے پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments