یہ اختلاف کا حق ہے، مخالفت کا نہیں


اس نگار خانے میں دلیل ہر امر کی موجود ہے۔ کوے کو سفید ثابت کر سکتے ہیں اور سیاہ بھی۔ دن کو رات کہہ سکتے ہیں اور رات کو دن بھی۔ آپ کی سچائی کوئی شخص اپنی دلیل سے جھوٹ میں بدل سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کی سچائی کے ساتھ آپ ایسا کر سکتے ہیں۔

آپ کا یقین آپ کو اپنی نظر میں بے شک سچا ثابت کر سکتا ہے، آپ کا اپنا ضمیر مطمئن ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں دوسرے کا یقین بھی وہی ہو۔ دلیل ایک فن ہے اور جو اس میں جتنا کامل ہے اس کی بات کا وزن اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ پھر آپ دلیل کے ساتھ اگر شماریاتی تجزیے اور اعداد و شمار بھی رکھ دیں تو آپ اپنے نظریے کو سمجھا بھی سکتے ہیں اور ثابت بھی کر دیتے ہیں۔

آپ، ہم، ہم سب موجودہ سائنسی دور کا حصہ ہیں۔ بہت سے اہم نظریات سائنس دان بیان کرتے ہیں، پان دس سال بعد ان کا رد آ جاتا ہے، نیا نظریہ سامنے ہوتا ہے، کچھ بحث کی جاتی ہے اور عموماً اسے مان لیا جاتا ہے۔ ادویہ سازی کے میدان میں دیکھیں تو آپ کو سب سے عمدہ مثال ایک دوا تھیلیڈومائیڈ (Thalidomide) کی نظر آتی ہے۔

ایک جرمن کمپنی نے اپنی یہ دوا 1957ء میں متعارف کی، اسے استعمال کرنے والی قریباً دَس ہزار خواتین کے ایسے بچے پیدا ہوئے جو جسمانی نقائص کے حامل تھے اور ہاتھ یا پاؤں سے معذور تھے۔ 1961ء میں یہ دوا بازار سے ہٹا لی گئی۔ جرمنی میں آج کل ایسے مردوں اور عورتوں کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار ہے جو اس دوا کے اثرات کی وجہ سے معذور پیدا ہوئے۔ ان تمام افراد کو اْس خصوصی فنڈ سے پنشن دی جاتی ہے جسے قائم رکھنے میں دوا ساز ادارہ گرونن تھال 1970ء سے اب تک حکومت کا مددگار ہے.

تھیلیڈومائیڈ کی شکایات موصول ہونے پر ادارے نے غالباً صدق دل سے غور کیا، تجربات کیے اور یہ ہولناک اثر دیکھنے کے بعد دوا بنانی بند کر دی۔ اسی طرح اور کئی دواؤں کی مثال دی جاسکتی ہے کہ جب وہ بنیں، اس وقت وہ جدید ترین مثبت تبدیلی کے زمرے میں رکھی جاتی تھیں۔ میڈیکل سائنس نے بعد میں انہیں کسی بھی معاملے میں نقصان دہ ثابت کیا تو وہ خصوصی وارننگ کے ساتھ آنے لگیں یا بند کر دی گئیں۔ گویا کٹ حجتی کے بجائے تنقید سے سیکھا گیا۔

زمین چپٹی سمجھی جاتی تھی، گول ہو گئی۔ سورج ساکن سمجھا جاتا تھا، متحرک ثابت ہوا۔ چاند کی چمک سورج کی دی ہوئی ثابت ہوئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گلوبل وارمنگ تھیوری کچھ اتنی صحیح نہ تھی۔ چائے کبھی صحت کے لیے اچھی قرار دی گئی کبھی بری۔ ایسپرین کبھی معدے کے واسطے بری بتائی گئی، کبھی اس کا خون پتلا کر دینا مشتہر کیا گیا۔ اور تو اور نظریہ اضافت میں بھی ترامیم آتی جا رہی ہیں، گویا تغیر کو ہی ثبات ہے۔

سائنس، ایک جدید ترین علم، اور اس میں بھی کوئی بات اٹل نہیں، حرف آخر کچھ نہیں، ہر نظریہ بدلنے کے لیے صلائے عام ہے۔ یہ سائنس والے اتنی دن رات محنت کے بعد کوئی نظریہ قائم کرتے ہیں اور پانچ سال بعد اس کے منکر ہو جاتے ہیں، کیوں ہو جاتے ہیں۔ شاید یوں کہ علم اور معاشرہ اسی صورت آگے بڑھتا ہے جب تک آپ کھلے دماغ سے بحث کرتے رہیں، دلیل سے قائل ہوں اور قائل کریں۔ سیانے کہتے ہیں بڑی سے بڑی جنگ بھی مذاکرات پر منتج ہوتی ہے۔

مذہب میں یونانی فلسفے کا مقابلہ کرنے کے واسطے مسلمانوں نے علم کلام ایجاد کیا۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا، مناظرے کیے گئے، مباحث ہوئے لیکن فلسفہ، مذاہب اور سائنس میں ان تمام دلائل کے باوجود وہ سب اختلافی مسائل اپنے پیروکاروں سمیت آج کے دن تک موجود ہیں۔ کبھی نہ ختم ہونے کے لیے۔ گویا جو قائل ہوئے وہ بھی نہ رہے، جنہوں نے قائل کیا وہ بھی، پرنالہ ہنوز وہیں گر رہا ہے۔

اس مختصر بیانیے سے مقصود یہ تھا کہ عام زندگی میں اور سوشل میڈیا پر ہم بقول شخصے اختلاف رائے پر اتفاق کیوں نہیں کر سکتے۔ صحت مند بحث یقیناً اچھے دماغوں کی نشانی ہے لیکن بحث برائے بحث نری کدورت کو جنم دیتی ہے جس سے ، اگر آپ چاہیں، تو کنارہ کش ہوا جا سکتا ہے۔ ثنااللہ ظہیر کا شعر ہے؛

میں دے رہا ہوں تمہیں خود سے اختلاف کا حق

یہ اختلاف کا حق ہے مخالفت کا نہیں

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain