آپ کی شادی کتنی صحت مند ہے؟


’وہ مجھے چاہتا تھا۔ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا۔ میری تعریفیں کرتے نہیں تھکتا تھا۔ میری ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرتا تھا۔ مجھ سے گھنٹوں باتیں کرتا رہتا تھا۔ لیکن اب، شادی کے چند سال بعد، وہ چپ چپ رہتا ہے۔ بجھا بجھا سا رہتا ہے۔ کئی کئی دن بات نہیں کرتا، سوال پوچھوں تو ’ہوں‘ ’ہاں‘ میں جواب دیتا ہے

یوں لگتا ہے ہماری MONOGAMY آہستہ آہستہ MONOTANY میں بدلتی جا رہی ہے۔ میں نے مشورہ دیا ’ ہم دونوں جا کر کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرتے ہیں‘۔ کہنے لگا۔ ’کیا میں پاگل دکھائی دیتا ہوں۔ اگر تمہیں کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے تو تم خود جا کر مل لو۔ ‘

میں نے یہ خط پڑھا تو مجھے عرفان ستار کے دو شعر یاد آئے

یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں

تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے

جب ’ہم سب‘ میں میرا کالم ’محبت‘ جنس اور شادی‘ چھپا تو اس کے نو ہزار پڑھنے والوں میں سے کئی ایک نے ای میل اور فیس بک کے ذریعے مجھے اپنے ازدواجی مسائل کی تفاصیل بھیجیں۔ بعض ای میلز اور فیس بک مسیجز کے میں نے جواب بھی دیے۔ بعض کو فون بھی کیا۔ چونکہ سب کو جواب دینا ناممکن تھا اس لیے ایک خاتون نے مشورہ دیا کہ میں ان کے ازدواجی مسائل کو بنیاد بنا کر ایک کالم لکھوں سو وہ حاضر ہے۔ امید ہے اس کالم سے چند محبت کرنے والے‘ شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے والے اور برسوں کے شادی شدہ جوڑے‘ جو LOVELESS MARRIAGES میں پابندِ سلاسل ہیں‘ استفادہ کر سکیں گے۔ [ میں جب اگلے ماہ لاہور میں وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑسے ملوں گا تو انہیں بتائوں گا کہ میں کیسے ’ہم سب‘ کا تھیرپسٹ بنتا جا رہا ہوں]

ازدواجی مسائل کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ان مسائل کی تفہیم اور تشخیص کریں اور پھر ان کا حقیقت پسندانہ حل تجویز کریں۔ میں اس کالم میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہم کینیڈا میں اپنے کلینک میں شادی شدہ جوڑوں کی کیسے مدد کرتے ہیں۔

جب ہماری کمیونٹی کے ڈاکٹر یا سوشل ورکر ہمیں مریض بھیجتے ہیں تو ہماری نرس BETTE DAVIS ان کا فون پر انٹرویو لیتی ہیں ان کی MOTIVATION کو پرکھتی ہیں اور میرے ساتھ انٹرویو کا وقت مقرر کرتی ہیں۔ مریضوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ بعض مریضوں کو کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔۔ جب میں ان سے ملتا ہوں تو انہیں انٹرویو کرنے کے بعد ایک سوال نامہ بھی دیتا ہوں۔ ان سوالوں کے جوابوں سے ان کے مسئلے کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ رومانوی تعلقات اور ازدواجی رشتوں میں مسئلے کا PERCEPTION اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ مسئلہ۔ اگر شوہر کہتا ہے کہ میں بیوی سے محبت کرتا ہوں لیکن اگر بیوی یہ نہیں سمجھتی کہ اس کا شوہر اس سے محبت کرتا ہے تو یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگر بیوی کہتی ہے کہ وہ شوہر پر اعتماد کرتی ہے لیکن اگر شوہر نہیں سمجھتا کہ اس کی بیوی اس پر اعتماد کرتی ہے تو یہ بھی ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ محبت کے رشتوں میں کیسے پتہ کیا جائے کہ کون کتنا سچ بول رہا ہے؟۔

ہمارے لیے کسی کے اعمال اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ اس کے الفاظ۔۔ بے ٹی ڈیوس مریضوں سے کہا کرتی ہیں ۔ LOVE IS A VERB ہم لوگوں کو ان کے اعمال سے پہچانتے ہیں۔ اگر کوئی شخص وعدہ کرتا ہے اور پھر اس وعدے کو نہیں نبھاتا تو وہ محبت کے عملی اظہار میں کوتاہی کرتا ہے۔ امریکی ماہرِ نفسیات HARRY STACK SULLIVAN کہا کرتے تھے کہ کسی شخص کی محبت اس وقت سچی محبت بنتی ہے جب کسی دوست‘ محبوب یا شریکِ سفر کا دکھ درد اسے اپنے دکھ درد کے برابر محسوس ہونے لگے۔

جب ہم انٹرویو اور سوال نامے سے ازدواجی مسائل کی تشخیص کر لیتے ہیں تو پھر ان کے نفسیاتی علاج کے دوران انہیں دو مشورے دیتے ہیں۔

پہلا مشورہ یہ کہ وہ میاں بیوی ہر ہفتے ایک دوسرے کے ساتھ اچھا وقت گزاریں۔ سیر کرنے جائیں ‘لنچ یا ڈنر کھانے جائیں۔ مل کر فلم دیکھیں۔۔۔ موسیقی سنیں۔۔۔ مل کر وہ کام کریں جن سے دونوں کی خوشیوں اور محبت میں اضافہ ہو۔ میں جوڑوں سے کہتا ہوں کہ ہر رشتے میں محبت کا ایک EMOTIONAL BANK ACCOUNT ہوتا ہے۔ خوشحال جوڑے اس اکائونٹ کو بھرا رکھتے ہیں۔ خالی نہیں ہونے دیتے۔ وہ جوڑے زیادہ خوش رہتے ہیں جو ایک دوسرے کے اچھے دوست بن جاتے ہیں۔ میں مریضوں سے کہتا ہوں

IN A LOVING RELATIONSHIP FRIENDSHIP IS THE CAKE ROMANCE IS THE ICING

دوسرا مشورہ یہ کہ ہر ہفتے ایک آدھ گھنٹے کی میٹنگ رکھیں جس میں انٹرنیٹ‘ ٹی وی‘ سیل فون سب بند کر کے اس ہفتے کے مسائل پر تبادلہِ خیال کریں۔ اس تبادلے سے جوڑے ایک دوسرے سے COMMUNICATE کرنا اور مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنا سیکھتے ہیں۔

اگر میاں بیوی دونوں اپنی شادی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو وہ چند مہینوں میں اپنے مسائل کا تسلی بخش حل تلاش کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر ٹریفک یک طرفہ ہے تو مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگتے ہیں۔

ہم اپنے کلینک میں جو سوال نامہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں بیس سوال ہوتے ہیں اور ہر سوال کے ایک سے پانچ نمبر۔ شوہر اور بیوی دونوں ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ چونکہ فریقین سے ایک جیسے سوال پوچھے جاتے ہیں اس لیے جلد پتہ چل جاتا ہے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے سے توقع اور اپنے مسائل کی آگہی کس سطح کی ہے۔ یہاں میں صرف چند سوال لکھوں گا تا کہ آپ کو ان کا اندازہ ہو سکے۔۔ یہ سوال نامہ انگریزی میں کنیڈین COUPLES کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اس سے کوئی بھی استفادہ کر سکتا ہے۔

1۔ کیا آپ اپنے شریکِ سفر پر اعتماد کرتے ہیں ؟

2۔ کیا آپ کا شریک سفر آپ پر اعتماد کرتا ہے؟

3۔ کیا آپ اپنے شریکِ سفر کی موجودگی میں اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں؟

4۔ کیا آپ کا شریکِ سفر آپ کی موجودگی میں اپنی مرضی سے کام کر سکتا ہے؟

5۔ کیا آپ اپنے شریکِ سفر کے دوستوں اور رشتہ داروں کا احترام کرتے ہیں؟

6۔ کیا آپ کا شریکِ سفر آپ کے دوستوں اور رشتہ داروں کا احترام کرتا ہے؟

7۔ کیا آپ اپنے شریکِ سفر سے محبت اور پیار کا اظہار کرتے ہیں؟

8۔ کیا آپ کا شریکِ سفر آپ سے محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے؟

9۔ کیا آپ مسائل کا PEACEFUL DIALOGUE سے حل تلاش کر سکتے ہیں؟

10۔ کیا آپ کا شریکِ سفر مسائل کا PEACEFUL DIALOGUE سے حل تلاش کر سکتا ہے؟

11۔ کیا آپ کا خاندان آپ کے رشتے کا احترام کرتا ہے؟

12۔ کیا آپ کے شریکِ سفر کا خاندان آپ کے رشتے کا احترام کرتا ہے؟

( اگر آپ اس سوال نامے کی تفاصیل جاننا چاہتے ہیں اور اپنی مدد آپ کرنا چاہتے ہیں تو Amazon Kindle سے میری کتابTHE ART OF LOVING IN YOUR GREEN ZONE لے کر پڑھ سکتے ہیں)۔

اس کالم سے میں تین اہم باتیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔

پہلی بات یہ کہ خوش رہنا ہم سب کا انسانی حق ہے۔ ہم میں سے ہر انسان کو اپنی خوشی کی ذمہ داری لینی چاہیے اور اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنا چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ محبت اور شادی دو طرفہ ٹریفک ہے۔ کسی ایسے شخص سے محبت کرتے رہنا جو آپ سے محبت نہ کرتا ہو دانائی کی بات نہیں۔ عارف عبدالمتین کا شعر ہے

ہم چاہنے والوں پہ چھڑک دیتے ہیں جاں تک

ہاں بھولنے والوں کو نہ ہم یاد کریں گے

کامیاب محبت اور شادی کی بنیاد دوطرفہ دوستی اور پرخلوص مکالمے پر ہے۔ شادی کے مسائل میں شوہر اور بیوی کو مل کر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ اگر ہم خود اپنے نفسیاتی یا ازدواجی مسئلے کا حل تلاش نہیں کر سکتے تو ہمیں‘خاص طور پر مردوں کو‘ کسی ماہرِ نفسیات سے مدد لینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail