ایک بوڑھے کی ریٹائرڈ زندگی کی ایک مختصر جھلک


”میں بیاسی برس کی بھرپور عمر گذار کر اپنے رب کےحضور حاضر ہو چکا ہوں۔ میری تیسری نسل کا سرخیل میرا نواسہ اویس احمد لکھنے پڑھنے کا شوقین ہے۔ آج اس نے کوئی مضمون پڑھا جس کا عنوان تھا ”ہمارے بوڑھے اکیلے کیوں رہ جاتے ہیں؟ “۔ مضمون پڑھ کر میرے نواسے نے مضمون کی مصنفہ سے میرا ذکر کر دیا۔ میری اس بیٹی نے میرے نواسے کو مشورہ دیا کہ وہ مجھ پر لکھے۔ میرا نواسہ الجھن میں پڑ گیا کہ وہ مجھ پر کیسے لکھے۔ چناچہ اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے یہ مضمون عالم بالا سے میں خود اس کے ذہن میں ٹرانسفر کر رہا ہوں۔

میرا نام نصیر احمد رکھا گیا تھا۔ میں معروف ولی اللہ حضرت نوشہ گنج بخش قادری رحمۃ اللہ علیہ کی نسل میں سے ہوں چناچہ ہم لوگوں کے نام کے ساتھ ”پیر“ کا سابقہ اور ”نوشاہی“ کا لاحقہ لگتا ہے۔ لوحِ مزار پر پیر نصیر احمد لکھا ہوا ہے۔ میں 1920 میں ضلع گجرات کے گاؤں رنمل شریف میں پیدا ہوا۔ میرے والد اسکول ماسٹر تھے۔ اس مضمون میں مگر اہمیت میرے شجرہ یا میرے حالات زندگی کی نہیں ہے۔ مجھے میرے نواسے کو یہ بتانا ہے کہ بوڑھے ہو کر کیسے زندگی گذاری جائے چناچہ ضمنی مگر دلچسپ باتوں کو چھوڑتے ہوئے ہم سیدھا 1980 میں چلتے ہیں۔ اس سال میں سوئی ناردن گیس میں تیس سال ملازمت کے بعد ایک اچھے عہدے پر سے ریٹائر ہوا تھا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد جو سب سے بڑا سوال میرے سامنے تھا وہ یہ تھا کہ آگے کیا ہو گا۔ غیر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بوڑھوں کے لیے ایسی مصروفیات میسر نہیں تھیں جن کو اختیار کر کے پہاڑ جیسا وقت کاٹنا آسان ہو جاتا۔ سو جو کرنا تھا یہیں کرنا تھا اور خود کو مصروف رکھنا تھا۔ پنشن اور گریجوٹی وغیرہ سے ملنے والی رقم سے ایک ذاتی گھر کی تعمیر مکمل ہو چکی تو میں اپنی بیوی، دو عدد بچوں اور ایک بہو سمیت نو تعمیر شدہ گھر میں منتقل ہو گیا۔ ویسے تو میرے پانچ بچے تھےمگر دو بیٹیاں شادی شدہ اور اپنے گھر بار کی تھیں۔ کچھ دن ہمیں گھر کو سیٹ کرنے میں لگ گئے۔ تب میں نے اور میری بیوی نے سوچا کہ ہم نے ساری عمر خود کو کسی پر بار نہیں کیا لہٰذا اب بھی ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ چناچہ ہم نے خود کو مصروف کرنے کے لیے اپنے گھر کے چاروں اطراف چاردیواری کےاندر موجود زمین کو باغیچہ بنانے کی ٹھانی۔ تین سال تک اس مشغلے نے ہمیں مصروف رکھا اور ہمارا ہرا بھرا باغیچہ تیار ہو گیا۔

ان تین سالوں میں اس محلے میں ہماری اچھی خاصی واقفیت ہو چکی تھی جہاں ہم لوگ شفٹ ہوئے تھے۔ محلے کے دیگر بابوں سے گپ شپ چلتی رہتی تھی۔ میرے علم کو دیکھتے ہوئے محلے والوں نے مجھے متفقہ طور پر مسجد کا پیش امام بھی بنا دیا۔ مصروفیت اور بڑھ گئی۔ میری بیوی نے محلے کے بچوں کو مفت قرانی تعلیم دینا شروع کر دی۔ یوں ہمیں اچھی مصروفیات مل گئیں۔ اس دوران میرے دونوں بیٹے روزگار کے سلسلے میں بالترتیب کراچی اور جرمنی چلے گئے۔ چھوٹی بیٹی کی بھی شادی ہو گئی۔ اسی سال میری منجھلی بیٹی جو کراچی میں ہوتی تھی، نے اپنے بڑے بیٹے کو، جو کہ اب اس تحریر کا مصنف ہے، حافظ قران بنانے کی ٹھانی۔ دس برس کا شوخ و شنگ اویس ہمارے پاس آ گیا، گویا ویرانے میں بہار آ گئی۔ ہمارے گھر کے پاس ایک اچھا مدرسہ تھا۔ ہونہار کو اس مدرسے میں داخل کروا دیا گیا اور ہم نے اس کی تربیت اور حفظ کی ذمہ داری اٹھالی۔ وہ چار برس پلک جھپکنے میں گزر گئے۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ 1990 میں اویس قران حفظ کر کے کراچی واپس چلا گیا۔ اب ہم میاں بیوی صحیح معنوں میں اکیلے ہوئے۔

ستر برس کی عمر میں بھی ہم میری عمومی صحت اچھی تھی۔ میں اور میری بیوی صبح سویرے اٹھتے۔ نماز سے فارغ ہو کر چار پانچ میل کی سیر کرتے (یہ ہمارا شروع کا معمول تھا جو ریٹائرمنٹ سے لے کر آخر تک جاری رہا)۔ گھر واپس آ کر اپنی دوائیاں کھاتے اور سادہ سا ناشتہ کرتے۔ پھر میری بیوی باغبانی میں مصروف ہو جاتی اور میں کبھی پیدل اور کبھی سائیکل چلاتا ہوا بازار چلا جاتا۔ اشیائے ضرورت کے ہمراہ واپس لوٹتا تو کھانا تیار ہوتا۔ سادہ سا کھانا کھا کر میں نماز ظہر کے لیے مسجد چلا جاتا۔ نماز کے بعد ہم میاں بیوی قیلولہ کرتے۔ نماز عصر کے بعد میری بیوی کے پاس بچے قران پڑھنے آ جاتے جب کہ میں محلے کے سماجی اور معاشرتی مسائل سنتا اور ان کو حل کرتا تھا۔ مغرب کے بعد ہم کھانا کھاتے اور عشا کے بعد چہل قدمی کر تے۔ اس کے بعد میرا مطالعہ کا وقت تھا۔ ایک سے دو گھنٹے مطالعہ کے بعد میں سو جاتا تھا۔ یہ معمولات معمولی کمی بیشی کے ساتھ تمام عمر جاری رہے۔

میرے بچے اپنے بچوں کے ساتھ اکثر و بیشتر میرے گھر آتے جاتے اوررہتے رہے۔ اسی طرح دس سال مزید گزرگئے۔ اب مجھے سانس کی تکلیف رہنے لگی تھی۔ اوہ ہاں یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ پچھلے تیس سال سے میں دل کا مریض بھی رہا اور تقریباً اتنے ہی عرصہ سے ذیابیطس بھی لاحق تھی مگر میں نے ہمیشہ اپنی صحت کا بھرپور خیال رکھا۔ اور اب میں بیاسی برس کا ہو گیا تھا۔

وہ اٹھارہ فروری 2002 کا دن تھا۔ اس دن صبح سے ہی میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی مگر اپنی بھرپور قوت ارادی کے بل پر میں نے اس دن بھی تمام نمازیں مسجد میں ہی پڑھائی تھیں۔ رات کے نو بجے میرے سانس تیز اور مختصر ہونے شروع ہو گئے۔ مجھے سانس اندر کھینچنے میں دقت محسوس ہو رہی تھی۔ رات دس بجے تک میری طبیعت کافی بگڑ چکی تھی۔ میری بیٹی نے بے پریشان ہو کر اپنے بیٹےعمر کو بھیجا کہ ایمبولینس کا بندوبست کرے۔ جب تک ایمبولینس گھر پہنچتی۔ میری طبیعت کافی خراب ہو چکی تھی۔ پھر بھی میں اپنے قدموں سے چل کر ایمبولینس میں بیٹھا۔ میری بیوی اور بیٹی میرے ہمراہ تھی۔ اسپتال پہنچ کر جب میں نے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہا تو یہ ممکن نہ ہوا۔ سینے میں تکلیف بھی بہت بڑھ چکی تھی اور میری نگاہوں کے سامنے منظر دھندلا رہا تھا۔ بس مجھے اتنا یاد رہا کہ مجھے وہیل چیئر پر بٹھا کر فوری طور پر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ “

اختتام از مصنف: اس دن میرے نانا اپنے پیروں پر چل کر اسپتال گئے اور محض بیس منٹ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔


ہمارے بوڑھے اکیلے کیوں رہ جاتے ہیں؟

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad