کیا کچھ ہونے کو ہے؟


سب کو ہی عجیب لگا کہ آصف زرداری نے طاہرالقادری سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ تک کہا کہ اگر طاہر القادری انصاف کے حصول کے لیے سڑک پر نکلتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔ بہت سوں نے اس بات اور اس ملاقات پر اعتراض کیا، مخالفین نے طعنے دیے، دشنام طرازی کی، کچھ ہارڈ کور جیالوں نے اسے ان کی فراست پر محمول کیا۔

کسی بھی ملک یا کسی بھی پارٹی کا ایک نظریہ یا قصد ہوتا ہے جس کے حصول کی خاطر مستقل بنیاد پر کیے جانے والے اعمال کو مجموعی طور پر حکمت عملی کہا جاتا ہے مگر اس دوران مختصر مدت کی عملی تبدیلیوں یا پینتروں کو لائحہ عمل کا نام دیا جاتا ہے۔ لائحہ ہائے عمل بیشتر اوقات غیر متوقع بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات بوکھلا دینے والے، عام روش سے یکسر مختلف بھی ہوتے ہیں۔

آصف علی زرداری، طاہرالقادری سے کیوں ملے اس کے بارے میں تو جواب وہی ہے جو انہوں نے ان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دیا ہے مگر یہ بیان حال ہی میں پیپلز پارٹی کے پچاس سالہ یوم تاسیس کے موقع پر راولپنڈی پریڈ گراؤنڈ میں ہوئے جلسے میں پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے حکمت عملی سے متعلق ”سوشل ڈیموکریسی“ کو اپنانے کے بیان سے تکنیکی طور پر مختلف رہا۔

قانونی طور پر درست تھا کہ ماڈل ٹاؤن میں مارے جانے والے لوگوں کے مجرم ابھی تک مل نہیں پائے تو انصاف کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے مگر تکنیکی طور پر کسی ایسی پارٹی یا ایسے شخص کی عملاً حمایت کرنا، سوشل ڈیموکریسی کی خاطر کوشاں کسی پارٹی کے لیے اس لیے مناسب نہیں کہ مذہبی جماعتیں اور مذہبی رہنما عملی طور پر سوشل ڈیموکریسی کے مخالف ہوتے ہیں بالخصوص اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے کیونکہ ان کے لیے سماجی انصاف کا ماڈل شرعی نظام ہے۔

ہمارے ایک دوست کی بیگم کے مطابق طاہرالقادری ”زیرو پوائنٹ ” بنے ہوئے ہین جن سے جسے دیکھو آ کر کے مل رہا ہے۔ سب جانتے ہیں اگر ان کا جلسہ ماڈل ٹاؤن کی بجائے پشاور یا کراچی میں ہوا ہوتا یا ان کے جلسے میں لوگوں کو نہ مارا جاتا تو آج ان کی قطعی کوئی اہمیت نہ ہوتی لیکن چونکہ اب ان کے پاس ایک جائز مطالبہ ہے تو جس کو دیکھو بقول صاحب طرز کالم نگار نصرت جاوید کے انہیں ”شیر بن شیر“ کہہ کر اکسانے پر تلا ہوا ہے۔

اگر آصف زرداری نہ ملتے اور باقی تینوں یعنی چوہدری شجاعت، شاہ محمود قریشی اور مصطفٰے کمال مل بھی لیتے تو اشارہ کسی اور طرف جاتا مگر کیا آصف علی زرداری انہیں کے اشارے پر یہ بھونڈی چال چل سکتے ہیں، کسی کا بھی باور کرنے کو جی نہیں چاہتا۔

مین سٹریم پارٹیوں کو بعض اوقات بلاشبہ مجبوراً یا مصلحتاً نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہمدستی کرنی پڑ جایا کرتی ہے مگر آصف علی زرداری جنہوں نے بڑی فراست سے پانچ سال پورے کیے تھے یقینا“ نہیں چاہیں گے کہ یہ ریت ٹوٹے۔ یہ البتہ دوسری بات ہے چونکہ حکومت کی کشتی بھنور میں ہے، اسے مزید ہچکولے دینے اور اس میں سوار لوگوں کو مزید بوکھلانے کی خاطر انہوں نے ایسا کیا ہو۔

الیکشن سے پہلے، اقتدار میں آنے کی خواہاں ہر پارٹی، حکومت وقت کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے جتن کیا کرتی ہے۔ الیکشن بروقت نہ ہوں، ایسا حقیقی سیاسی پارٹی نہیں کیا کرتی، الیکشن قبل از وقت ہوں ایسی خواہش وہ پارٹیاں کیا کرتی ہیں جنہیں گمان ہو کہ اس سے ان کی پارٹی کو مفاد مل سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نہ ایسا چاہے گی اور نہ اس پارٹی کو ویسا کرنے سے کچھ مفاد مل سکتا ہے۔ ویسے آصف زرداری باقاعدہ کھلاڑی ہیں، وہ بلف بھی کھیل سکتے ہیں تاکہ لوگ اور طرح سے سوچنے لگ جائیں لیکن یہ چال اگر بلف ہے تو الٹا گلے پڑ سکتی ہے۔

ان کی یہ چال تا حال کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔ ایسے وہ ہیں نہیں کہ سیاسی فائدے کو پیش نظر رکھے بنا کوئی ہلکی سی چال بھی چلیں۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ذاتی طور پر بالکل دکھائی نہیں دے رہا کہ قادری صاحب اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ وہ لاہور میں مصیبت بن جائیں۔ شاید زرداری صاحب کا مقصد ہی پنجاب میں حکومت کو زک پہنچانا ہو مگر حکومت کو تو زک نواز شریف کے نا اہل ہونے سے بھی نہیں پہنچی۔ ان کا اپنا شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم منتخب ہو کر جیسی کیسی سہی حکومت چلا رہے ہیں۔ شہباز شریف کے مستعفی ہونے سے بھی قیامت نہیں ٹوٹے گی۔ رانا ثناءاللہ نہ سہی رانا مشہود تو کہیں نہیں گئے یا کوئی اور۔ کسی کو بھی عارضی وزیراعلٰی بنا کر کے کام چلایا جا سکتا ہے۔

شہباز شریف کے فارغ ہونے سے پیپلز پارٹی کو کیا سیاسی مفاد مل پائے گا؟ ایسا کچھ دکھائی تو نہیں دیتا لیکن اگر پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر لاہور میں آٹھ دس نشستیں بھی مل گئیں تو یہ ”کم بیک“ ضرور کہلائے گا۔ تاہم آصف علی زرداری قبل از وقت انتخاب کے حامی ہرگز نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).