حامد میر صاحب کے جواب میں


بدقسمتی سے وطن عزیز میں دوسرے شعبوں کی طرح لکھنے والوں میں بھی الاماشااللہ تھوڑے لوگ رہ گئے ہیں جو قلم کو ضمیر کی عدالت سے گذار کر لکھتے ہیں۔ بہت سے صحافی اب لفافے، ریٹنگ اور ہوا کے رخ کو سمجھ کر لکھتے ہیں۔ اخبار کے کالم اور ٹی وی پروگرام کے ذریعے سیاستدانوں کو اخلاقیات کا سبق دینے والے نجانے اپنے آپ پر ان اخلاقیات کو نافذ کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھتے؟ ایک قاری کو توقع ہوتی ہے کہ لکھنے والا کم ازکم ایسے حقائق بیان کرے جن سے اختلاف تو کیا جا سکے لیکن اس کی سند کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔

خادم رضوی صاحب کے دھرنے کے بعد جہاں سیاستدان اپنی تصویروں اور تقریروں کے ذریعے اپنا اسلام ثابت کرتے پھر رہے ہیں وہاں لگتا یہی ہے کہ حامد میر جیسے صحافیوں کو بھی یہ ضرورت پیش آ گئی ہے۔ اورختم نبوت کا موضوع ان کا آسان ہدف ٹھہرا۔ ایک ہفتے میں دو کالم اور دونوں حقائق کے سراسر منافی۔

سردست ان کا 11 دسمبر 2017ء کا کالم زیر بحث ہے۔اپنے کالم ’’ختم نبوت اور بھٹو کا سیکولر ازم‘‘ کے شروع میں حامد میر صاحب نے فلسطین کی قرارداد کا ذکر کیا ہے لیکن یہ بھول گئے کہ فلسطین کے لئے سرظفراللہ خان کی کیا خدمات ہیں۔ میر صاحب اس کے لئے پاکستان کے سفیر جناب ایم ایچ اصفہانی صاحب کا خط بنام قائد اعظم محررہ 15 اکتوبر1947 پڑھ لیجئے گا جس میں اصفہانی صاحب نے لکھا کہ ’’سر ظفراللہ نے فلسطین کے مسئلہ پر اقوام متحدہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس طرح وہ پاکستان کو صف اول میں لے آئے ہیں۔۔۔ان کا کام ابھی تو شروع ہوا ہے ۔ وہ چلے گئے تو ہم یہاں رفاقت اور راہنمائی سے محروم ہو جائیں گے۔‘‘ اور اس کا جواب بھی جو قائد نے 22 اکتوبر1947ء کو لکھوایا کہ وہ کس طرح چوہدری صاحب کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔

غازی علم دین نے جس گستاخانہ کتاب لکھنے پر پبلشر کو قتل کیا تھا، اس کے بارے میں حامد میر صاحب نے قائداعظم کی وکالت اورعلامہ اقبال کی بات لکھی ہے ، ایک حوالہ اس سلسلہ میں اس وقت اخبار مشرق گورکھپورکے ایڈیٹر مولانا حکیم سید ابراہیم برہم صاحب کا ہم حامد میر صاحب کے لئے تحریر کئے دیتے ہیں۔ (اس وضاحت کے ساتھ کہ جماعت احمدیہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے قانونی راستہ اختیار کرنے پر یقین رکھتی ہے۔)

’’جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں۔ آپ ہی کی تحریک سے ورتمان پر مقدمہ چلایا گیا۔ آپ ہی کی جماعت نے (راجپال کی گستاخانہ کتاب) کے معاملہ کو آگے بڑھایا۔ سرفروشی کی اور جیل جانے سے خوف نہ کھایا۔ آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر کو عدل وانصاف کی طرف مائل کیا۔۔۔ مشرق 22ستمبر1927ء

اور جب اسی سلسلہ میں مقدمات کا دور شروع ہوا تو سر ظفر اللہ خان کو انگریز جج نے مخاطب کرکے کہا کہ آپ توہین عدالت کررہے ہیں جس پر سر محمد ظفر اللہ خان نے اس جج کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ’’ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس کی خاطر اگر ہمیں ساری دنیا کی عدالتوں کی توہین بھی کرنی پڑی تو ہم ہر سزا کے لئے تیار ہیں۔‘‘

پھر سب سے بڑی کذب بیانی موصوف نے قائد کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ سر ظفر اللہ خان کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ احمدی ہیں اور قائد اعظم بھی احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے لیکن وہ ان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے۔‘‘ حامد میر صاحب آپ نے اس بارے میں قائد اعظم کا کوئی حوالہ درج نہیں کیا۔ ممکن تو نہیں کہ آپ ان حقائق اور تاریخ سے ناواقف ہوں لیکن اگر ہیں تو عرض کردیتا ہوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند کردار کے سچے اور کھرے آدمی تھے اور ایسے کھرے کہ آپ نے کبھی بھی سیاسی مفاد کی خاطر جھوٹ اور منافقت کا سہارا نہیں لیا۔

قائد سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’احمدی مسلمان ہیں۔ اگر وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں تو ایک خود مختار ریاست کو بھی اسے رد کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ (5 مئی 1944ء)۔

کاش حامد میر صاحب اپنے ہی ادارے یعنی جنگ پبلشرز کی چھپی سردار شوکت حیات خان کی کتاب گم گشتہ قوم پڑھ لیتے کہ کس طرح قائداعظم نے سردار شوکت حیات خان کو جماعت احمدیہ کے اس وقت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے پاس ’’نیک دعاؤں اورتعاون‘‘ کی درخواست کے ساتھ بھجوایا۔ دیکھئے صفحہ 195

نواز شریف صاحب نے احمدیوں کو بھائی قرار دیا تھا تو انہیں آج بھی طعنے دئیے جاتے ہیں لیکن حضرت بابائے قوم ؒ نے تو سرظفراللہ خان کو اپنا سیاسی فرزند قرار دیا تھا۔ جنگ لاہور 2 ستمبر 1985ء

میر صاحب کیا آپ اس حقیقت سے بھی انکار کریں گے کہ قائداعظم جب سیاست سے دلبرداشتہ ہو کر مستقلاً انگلستان چلے گئے تھے تو انہیں واپس لانے والے احمدی امام تھے اور قائد نے اس کا اعلان بھی مسجد فضل میں کیا تھا جو احمدیوں کی لندن میں سو سال سے زائد پرانی عبادت گاہ ہے۔

حامد میر صاحب یہ قوم جو پہلے ہی مطالعہ اور تحقیق سے نابلد اور نا آشنا ہیں اسے جھوٹی اور غلط معلومات دے کر مزید گمراہ نہ کریں۔ احمدیوں کو آپ غیرمسلم سمجھتے ہیں، سمجھیں۔ علمی بحث بھی کریں لیکن خدارا ان حقائق کو جو پہلے سے موجود ہیں مسخ کرکے اپنی تاریخ بنانے کی کوشش نہ کیجئے۔ فراز نے کہا تھا ’’ میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی، میرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے‘‘، آپ ایسا نہ لکھیئے کہ آپ کا قلم امانت کی بجائے خیانت ثابت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).