جدید غلامی: ’میں نے زندہ رہنے کے لیے کتے کا کھانا کھایا‘


اپنے کمرے میں تنہائی کے عالم میں ماریہ نے ساتویں منزل کی کھڑکی سے کودنے کے بارے میں سوچا۔ ان کے کام کرنے کی جگہ محض دروازے کے دوسرے جانب تھی اور ان کے دن کا آغاز علی الصبح ہوتا اور 15 گھنٹوں کے بعد ختم ہوتا۔ انھوں نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا تھا اور وہ خود کو کمزور محسوس کر رہی تھیں۔

ماریہ (فرضی نام) دو ماہ قبل فلپائن سے برازیل آئی تھیں اور انھیں ساؤ پاؤلو کے ایک امیر علاقے میں ایک گھر پر گھریلو ملازمہ کی نوکری ملی۔

ان کے ذمے جو کام لگائے گئے وہ ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے تھے۔

انھیں ایک ماں اور ان کے سکول جانے والے تین بچوں اور ایک چھوٹے بچے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ پھر بڑے سے اپارٹمنٹ کی صفائی جس میں بڑا سا کھانے کا کمرہ، بیٹھنے کا کمرہ اور چار سونے کے کمرے تھے جن میں باتھ روم بھی تھے۔ پھر ان کے کتے کو سیر کروانا اور تمام بچوں کو سلانا۔

اس کنبے کی ماں عموماً گھر پر رہی رہتی تھی اور ماریہ کے کام کو دیکھتی رہتی۔ ایک مرتبہ اس بات پر بھی شکایت ہوئی کہ ماریہ نے شیشے کا ٹیبل صحیح صاف نہیں کیا، جس کے بعد انھیں ایک گھنٹہ اسے رگڑنے کے لیے کہا گیا۔ بعض اوقات ماریہ کے استری کیے ہوئے کپڑوں کی گنتی کی جاتی اور مطمئن نہ ہونے پر انھیں کئی گھنٹے مزید کپڑے استری کرنا پڑتے۔

کئی ہفتے گزر گئے لیکن ماریہ کے مالکان نے انھیں چھٹی نہ دی۔ کام کے بوجھ کے باعث انھیں کھانے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ بعض اوقات جو کھانا ملتا وہ بہت کم ہوتا۔

ایک رات انھوں نے فلپائن کے دیہی علاقے میں مقیم اپنے خاندان کے بارے میں سوچا: ان کی والدہ اور تین نوجوان بہنیں، جن میں سے دو کو دل کی بیماری کے باعث خصوصی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ان تمام کا انحصار ان کی تنخواہ پر ہے، ماریہ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ انھوں نے اپنا بستر لگایا اور سو گئیں۔

40 سالہ ماریہ نے جس دن اپنی جان لینے کے بارے میں سوچا تھا اس بارے میں وہ کہتی ہیں: ’میری دنیا گھوم رہی تھی۔ میں رو رہی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ برازیل اچھا ہے۔‘ انھیں یہ سمجھنے میں مشکل تھی کہ ان کے ساتھ اتنا برا کیوں ہوا۔‘

جب اگلے روز ماریہ سو کر اٹھیں تو بھوک کے باعث ان کے معدے میں درد تھا لیکن کام ان کا انتظار کر رہا تھا۔ کئی گھنٹوں کے بعد انھیں کچھ کھانے کو ملا۔ وہ خاندان کے کتے کے لیے کھانا بنا رہی تھی اور اس میں سے کچھ انھوں نے اپنے لیے رکھ لیا۔

وہ کہتی ہیں: ’میرے پاس بچنے کا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘

ماریہ کا معاملہ اپنی نوعیت کا واحد نہیں ہے۔

برازیل میں گھریلو ملازمین کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ تقریباً 60 لاکھ برازیلیوں کو درمیانے اور امیر طبقے کے خاندان ملازمت پر رکھتے ہیں۔ بہت سوں کو بدسلوکی اور امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض کو ایسی شرائط پر رکھا جاتا ہے جو جدید غلامی کے زمرے میں آتی ہیں۔

سنہ 2013 میں برازیل میں گھریلو ملازمین کے حوالے سے قانون سازی کا آغاز ہوا اور انھیں بھی دیگر ملازمین کی طرح حقوق دینے کی بات ہوئی جن میں آٹھ گھنٹے روزانہ کام، ہفتے میں زیادہ سے زیادہ 44 گھنٹے کام اور اضافی کام کا معاوضہ۔

ماریہ کے نزدیک یہی حقوق انھیں برازیل کھینچ لائے۔ ماریہ نے مناسب ماہانہ تنخواہ (600 امریکی ڈالر) اور ملک گھومنے پھرنے کا سوچا تھا اور یہی ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

ایک ایسی خاتون جنھوں نے دبئی اور ہانگ کانگ میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کیا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ برازیل میں ان کو کسی پریشانی کا سامنا ہوگا۔

جب ماریہ کو کام کے حالات میں بہتری کی کوئی امید نہ رہی تو انھوں نے اپنی مالکن سے سوال کیا ’آپ میرے ساتھ ہیمشہ ایسی کیوں ہیں؟‘ انھوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی مالکن نے انھیں حقارت آمیز لہجے میں کہا کہ وہ انہیں کبھی بھی پسند نہ آئی تھیں۔

ماریہ اپارٹمنٹ میں کم ہی اکیلے ہوتی تھی۔ لیکن ایک رات جب خاندان والے کہیں باہر گئے ہوئے تھے تو ماریہ نے دروازے چیک کیے جو سب کے سب لاک تھے۔ یہ اپارٹمنٹ ایک محفوظ عمارت میں تھا، اس لیے باہر کے دروازوں کا مقفل ہونا غیرمعمولی بات تھی۔ حقیقت یہ تھی ماریہ کو اکیلے چھوڑ کر جانے پر دروازے بند کر دیے گئے تھے جس نے انھیں پریشان کر دیا۔ یہی ایک موڑ ثابت ہوا جہاں انھوں نے بھاگنے کا فیصلہ کر لیا۔

اگلی صبح کسی کے جاگنے سے قبل انھیں باہر کا دروازہ کھلا ملا اور وہ چلی گئیں۔ انھیں خدشہ تھا کہ سامان کے ساتھ باہر جاتے ہوئے شاید عمارت کے سکیورٹی گارڈز کو شک ہو جائے اور وہ مالکان کو آگاہ کر دیں چنانچہ انھوں نے جان بوجھ کر سکیورٹی کیمروں کی جانب ہاتھ ہلا کر الوداع کہا۔ ان کے مطابق یہ ترکیب کامیاب رہی۔

لاکھوں کی تعداد میں فلپائن سے لوگ ایشیائی اور مشرق وسطیٰ ممالک میں ملازمتیں کرتے ہیں تاکہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔ لیکن ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوک کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔

برازیل میں جس ادارے نے ماریہ کو نوکری دی تھی اسی ذریعے فلپائن سے مزید تین ملازماؤں کو نوکری ملی لیکن گذشتہ سال انھوں نے ایسے ہی حالات میں نوکری چھوڑ دی۔

ان کی مدد فادر پاولو پریسی نے کی جو ایک غیرسرکاری تنظیم میساؤ پاز کے سربراہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’وہ رو رہی تھیں، ان کی عزت نفس مجروح ہوئی تھی۔‘

ماریہ اور دیگر تین فلپائنی خواتین نے دو ہزار ڈالر ایجنسی کو فیس دی تھی۔ ان کے مالکان نے ایجنسی کو چھ ہزار ڈالر دیے اور برازیل کی فلائٹ کا خرچ اٹھایا تھا۔

لیکن جو بات انھیں نہیں بتائی گئی تھی وہ یہ تھی کہ ان کے ویزے ان کی ملازمت سے منسلک تھے۔ چنانچہ اگر انھیں کام کے حالات پسند نہ تھے تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھیں اور نہ ہی نئی ملازمت تلاش کر سکتی تھیں۔ کام کے نئے پرمٹ کے لیے انھیں برازیل چھوڑ کر جانا پڑنا تھا۔

سنہ 2012 کے اختتام پر غیرملکی ملازمائیں رکھنے کی قانون سازی کے بعد سے تقریباً 250 فلپینی ملازمین کو برازیل میں ملازمت دی گئی۔ برازیلی لوگ فلپینی ملازمہ رکھنے کو اس لیے بھی ترجیح دیتے ہیں کہ وہ تربیت یافتہ ہوتی ہیں اور انگریزی بول سکتی ہیں، چنانچہ ان کے بچے ایسے ماحول میں رہ سکتے ہیں جہاں دو زبانیں بولی جارہی ہوں۔

ساؤ پاؤلو میں وزارت لیبر کی انسپیکٹر لیویا فریرا کہتی ہیں: ’لیکن بات اس سے بڑھ کر ہے۔‘

لیویا فریرا کی ٹیم کے مطابق ماریہ اور دیگر تین فلپائنی ملازماؤں کو غلاموں جیسے حالات میں رکھا گیا جسے برزیلی قانون میں جبری مشقت کہا جاتا ہے۔

لیویا فریرا کے مطابق ’جو ان سے وعدہ کیا گیا تھا کام کے حالات اس سے بہت مختلف تھے۔ ان سے جبری مشقت لی گئی۔‘

ان کو ملازمت پر رکھنے والے افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور انھوں نے اس پر کوئی بیان نہیں دیا۔ برازیل میں عوامی نمائندگی کرنے والے دفتر نے ان خاندانوں اور ادارے کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔

اب حکام دیگر 180 غیر ملکی گھریلو ملازمین کے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور وہاں بھی قانون کی کچھ خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں۔

ماریہ کو حکومت کی جانب سے ایک نئی ملازمت مل گئی ہے اور دیگر فلپائنی ملازماؤں کو ویزے جاری کیے گئے ہیں۔ لیکن ان کی زندگی خوف سے آزاد نہیں ہے۔ دو ماہ قبل وہ جس فلیٹ میں منتقل ہوئیں وہاں توڑ پھوڑ کی گئی، کوئی چیز اٹھائی نہیں گئی لیکن ماریہ اس کو ایک تنبیہ سمجھ رہی ہیں۔

ماریہ جو کچھ کماتی ہیں اس کا ایک بڑا حصہ اس ادارے کا قرض چکانے میں چلا جاتا ہے جس کے توسط سے وہ برازیل آئی تھیں۔ وہ اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی بھیجنے کے لیے رقم جمع کرنے کے لیے پرامید ہیں تاکہ وہ انکے کے نقش قدم پر نہ چلیں اور وہ اپنے گھر فلپائن واپس جا کر نیا کاروبار بھی شروع کرنا چاہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’فی الحال میں برازیل میں اپنی زندگی سے لطف اندور ہو رہی ہوں۔ میں آزادی محسوس کرتی ہوں۔ میں اب خوش ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp