روسی صدر کا شام سے اپنی فوج واپس بلانے کا فیصلہ


Russian President Vladimir Putin arrives to the Russian air base in Hmeimim in Syria, 11 December 2017

روسی صدر نے لاتیکا کے نزدیک ایک فوجی ہوائی اڈے پر شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کی۔

روس کے وزیر دفاع سرگے لاوروف نے کہا ہے کہ روس نے شام سے اپنی فوج کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔

یہ اعلان روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے شام کے دوران کے دوران کیا گیا۔

شام کی خانہ جنگی کے دوران روس کی شامی صدر اسد کے لیے حمایت کافی اہم تھی۔

یہ بھی پڑھیے

روس صدر نے گذشہ برس بھی ایسا ہی اعلان کیا تھا لیکن روسی فوج نے شام میں کارروائیاں جاری رکھی تھیں۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اس سارے عمل میں کتنا وقت لگے گا تو ان کا کہنا تھا ’یہ سب شام میں صورتحال پر منحصر ہے۔ ‘

روسی صدر نے لاتیکا کے نزدیک ایک فوجی ہوائی اڈے پر شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کی۔

روسی خبر رساں ادارے آر آئی اے کے مطابق صدر پوتن کا کہنا تھا ’میں نے وزراتِ دفاع اور چیف آف جنرل کو حکم دیا ہے کہ شام سے فوج کا انخلا شروع کریں۔ اور یہ واپس اپنے مستقل اڈوں پر لوٹ جائیں۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ شام میں موجود روسی فوج کا دستے کا ایک بڑا حصہ واپس لوٹ جائے گا۔‘

روسی صدر پوتن کا کہنا تھا کہ ’اگر دہشت گردوں نے دوبارہ کارروائیاں کیں تو پھر روس ایسے فضائی حملے کرے گا جیسے انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم روس اور شام میں دہشت گردی کا نشانہ بنننے والے افراد کی تکلیف کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔

انھوں نے شامی صدر بشار الاسد کو بتایا کہ وہ شامی اتحادی ایران اور حزبِ مخالف کے حامی ترکی دونوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ شام میں امن بحال ہو۔‘

A Russian bomber lands at the Russian Hmeimim military base in Latakia province, in the northwest of Syria, 16 December 2015

روسی صدر پوتن کا کہنا تھا کہ ‘اگر دہشت گردوں نے دوبارہ کارروائیاں کیں تو پھر روس ایسے فضائی حملے کرے گا جیسے انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔’

گذشتہ ہفتے صدر پوتن نے اعلان کیا تھا کہ مشرقے شام کے علاقے دریائے فرات کی وادی میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

روس نے ستمبر 2015 میں شام میں فصآیی حملوں کی ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقںد صدر بشار الاسد کی حکومت کو مستحکم کرنا تھا۔

ماسکو کے حکام نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ان کا ہدف صرف ’دہشت گرد‘ ہیں تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ روس کے فضائی حملوں کا نشانہ باغی اور شام شہری بنے۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے مبصرین کے مطابق شامی اور روسی فضائی فوج نے روزانہ کی بنیادوں پر باغیوں کے زیرِ قبضہ مشرقی علاقوں پر حملے کیے۔ انھوں نے دسمبر 2016 میں اس پر فتح حاصل کر لی لیلن سینکڑوں لوگ مارے گئے، ہسپتال، سکولز اور بازار تباہ ہو گئے۔

ماسکو متواتر اس بات سے انکاری ہے کہ فصائی حملوں میں عام شہریوں کا کوئی بھی جانی نقصان ہوا۔

تاہم شامی میں انسانی حقوق کی تنظیم نے اتوار کو ایک رپورٹ میں کہا کہ روسی فضائی حملوں میں اب تک 6328 شہری مارے گئے جن میں 1537 بچے شامل ہیں۔

اس گروہ کے مطابق شام سنہ 2011 سے بشار الاسد کے خلاف بغاوت کے بعد شروع ہونے والے خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک کم از کم 346612 لوگ مارے جا سکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp