روتی ہوئی بہنیں اور دور دیس کے غیرت مند بھائی


یادوں کے دریچے کبھی کھلتے اور کبھی بند ہوتے ہیں۔ کبھی یہ منظر کبھی وہ منظر۔ تجسس کی چڑیاں ہیں کہ ہمکتے کبھی ماضی کی اِس شاخ پہ بیٹھتی ہیں کبھی اُس شاخ پر۔ اپنا جواب مانگتی ہیں کہ وہ کیا تھا اور کیوں تھا؟

یہ نوجوانی کے ان دنوں کی بات ہے جب انقلاب، چاہے یہ کون سا ہی کیوں نہ ہو؛ اب بس آنے کو ہی تھا۔ ساتھیوں قدم بڑھاؤ کہ منزل تو بس اب جھولی میں گرنے ہی کو ہے۔ اگر کچھ دیر سویر ہے تو وہ بس ہمارا ہی قصور ہے۔ ندامت کے احساس میں گُندھی لوئر مڈل کلاسیوں کی تلملاتی ٹرپتی جوانیوں کا المیہ۔ شناخت کا بحران، کچھ ہونےکا انتظار اور کچھ بننے کی کچی پکی سوچیں۔

یہ ایک ایسی نسل کا المیہ تھا جو کبھی سرخ اور کبھی سبز لبادے میں اپنی آنکھوں میں تخیلاتی زندگی کے سویرے اور اجالے سمیٹے ہوئے تھی۔ سن اسی اور نوے کی دہائی بس کچھ ایسی ہی تھی۔ کچھ کٹھا اور کچھ میٹھا۔ کچھ ماضی کی روایات کا تسلسل اور کچھ نئی صدی کی آمد آمد۔

ہمارے حصے میں نوے کی دہائی اور خواب ستر کے پیٹے کے آئے کہ جنم ہی کچھ اِدھر کا نہ اُدھر کا تھا۔ دھندلکے خوابوں اور کچی پکی سچائیوں کو مان لینا ہی رومانیت کہلایا۔

ایک سہہ پہر حکم ہوا کہ دفتر تشریف لائیے، ایک سفید پوش، سفید ریش بزرگ آ رہے ہیں۔ جب دیکھا تو کچھ ایسے ہی کیوٹ قسم کے بزرگ تھے۔ کہنے لگے کہ افغانستان میں جہاد، جہاد نہیں رہا۔ اب ایک نیا محاذ کھل چکا ہے۔ بس جانے کی تیاری پکڑو۔ کئی سوال اور شکوے حاضر مجلس نے کیے لیکن جواب ایک ہی تھا یہ تم نہیں ہم جانتے ہیں اگر جان دینی ہی ہے تو کشمیر جاو، افغانستان اب پرائی لڑائی ہے۔ تحکم اور قطعیت کی پھنکار سے جی ایسا بیٹھا کہ آنکھیں مارے خوف یا احترام کے جھک گئیں۔ دلیل اور جواز کی کٹھن گلیوں میں سانسوں کی لڑی ٹوٹنے لگی۔ دلیل اس گلی کی بے آبرو حسینہ کا نام تھا۔

دھیمی اور پُرجوش مسکراہٹ کے حامل ان سفید ریش و سفید لباس بزرگ کے جُسے پر سیاہ واسکٹ بھلی لگ رہی تھی لیکن اس نئے محاذ کی خبر سناتے ہوئے ان کی للچائی مسکراہٹ ایک آنکھ نہ بھائی۔ دھرنوں کے خالق اس بزرگ سے نہ پہلے اور نہ اس کے بعد ملاقات ہوئی۔ نہ کبھی دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ پہلے ہی ملاقات میں کچھ ایسا رعب ڈالا کہ جی ہی مُرجھا گیا۔ اس وقت عمر ہی کیا تھی ہماری، یہی کوئی انیس بیس برس۔

کالج میں کلاس رومز کی بجائے کینٹین کے ایک کونے میں بیٹھنے والے سبز انقلابیوں نے زبردستی کی جھپیوں اور پھنکارتی سانسوں کے ساتھ ایک اور پیغام دیا کہ عصر کی نماز کے بعد دفتر تشریف لائیے کچھ مہمان مقبوضہ کشمیر سے آرہے ہیں اور ہم سے ملنا چاہتے ہیں۔ پتہ چلا کہ کوئی ڈار صاحب ہیں، کوئی ترابی صاحب اور شاید کوئی صفی نامی ہم نوجوانوں سے ملنا چاہتے ہیں۔

تجسس کی چڑیوں نے ہمکنا اور اہمیت کے نومولود نے کُلکاریاں مارنی شروع کر دیں۔ ایک چھوٹے سے قصبے کے نوجوان کی یہ اہمیت؟ الامان! سینہ پھولتا گیا اور دنیا ہمارے سامنے سرنگوں ہونے لگی۔

لیکن جب اپنے دیہاتی پن کی معصوم تشکیک نے سر ابھارا تو سوچ اس بھولے بھالے کسان کا روپ دھارنے لگی۔ جس کے جانچنے کا پیمانہ علمی نہ سہی لیکن افادہ کی کسوٹی پر پرکھنے کا عادی ہے۔ جو اور کچھ نہیں تو یہ ضرور جانتے ہیں کہ کس موسم میں کچی زمین پرکچھ بویا جائے تو فصل کیسی اٹھے گی۔ خوشوں میں کیسا رس سمائے گا۔

بھلا یہ ہم سے کیوں ملنا چاہتے ہیں اور یہ دنیا کے کس کونے سے چلے آرہے ہیں؟ ایک چھوٹے سے، سادہ سے قصبے میں ان کی آمد کو ایک روایتی مہمان کے طور پرتو لیا جا سکتا ہے لیکن ایسے بھی نہیں کہ کسان کا بچہ کچی فصلوں کے مستقبل سے غافل ہو جائے۔

ان مہمانوں کی زیادہ تر دلچسپی ہم نوجوانوں میں تھی۔ رقت بھری آواز میں پکار ہوئی کہ آؤ تمہاری بہنیں تمہیں پکارتی ہیں! شدید جذباتی دھچکے سہنے میں کچھ لمحے درکار تھے۔

یہ تو دماغ کو کافی چکرا دینے والی بات تھی۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جہاں کی یہ بہنیں ہیں وہاں کے بھائیوں کا کیا ہوا؟ اور یہ کہ ہزاروں میل کا سفر طے کرتے ہوئے ان بزرگوں کو میرے ہی قصبے کے نوجوانوں میں کیوں وہ غیرت ایمانی نظر آئی جو راستے بھر کی مسافت میں کہیں اور نظر نہ آ سکی۔
تجسس کی ہمکتی چڑیوں نے اب کی بار تو سر کے بال نوچنا شروع کر دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).