حدیبیہ کیس میں نیب پھنس گئی


حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کے لئے قومی احتساب بیورو کی اپیل سماعت کے آغاز میں جسٹس مشیر عالم نے نیب پراسکیوٹر کو ہدایت کی کہ پہلے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے میں تاخیرکی وجوہات پرمطمئن کریں کہ مقررہ وقت میں سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہ کیا گیا؟ زائد المیعاد اپیل کو کیوں سنا جائے، اس کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کریں گے۔

نیب کے خصوصی پراسکیوٹر عمران الحق نے کہا کہ گزشتہ روزکچھ دستاویزات دستیاب نہ تھیں، جے آئی ٹی رپورٹ کے نئے شواہد کی بات کی تھی، آج عدالت میں پیش کررہا ہوں۔ نیب پراسیکیوٹر نے حدیبیہ کیس سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ میں کی گئی سفارشات پڑھیں۔ جسٹس مشیرعالم نے پوچھا کہ کیا یہ سفارشات عدالتی فیصلے کا حصہ ہیں؟ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ حدیبیہ کا لفظ فیصلے میں شامل نہیں ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ اور عدالتی فیصلے میں جن افراد کا ذکرہے وہی لوگ حدیبیہ ریفرنس میں بھی شامل ہیں۔ جسٹس مشیرعالم نے پوچھا کہ اس تعلق کو کیسے جوڑیں گے؟ جسٹس مظہرعالم نے پوچھا کہ کیا پانامہ فیصلے میں عدالت نے جے آئی ٹی سفارشات پر کوئی مخصوص آبزرویشن یا ہدایات جاری کی ہیں؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جے آئی ٹی میں جن افراد اورشواہد کا ذکر ہے وہ حدیبیہ سے بھی متعلق ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہی شواہد سنہ دوہزار میں بھی دستیاب تھے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسحق ڈار کے بیان میں بھی یہی چیزہے۔

جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ فوجداری نوعیت کا الزام کیاہے وہ بتائیں؟ یہ سول نہیں فوجداری مقدمہ ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسے اکاؤنٹس سے رقم حدیبیہ ملز کے لئے آئی جو مشکوک تھے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا پھر تو یہ ٹیکس کا معاملہ بن جاتاہے، فوجداری کیس میں پہلے فرد جرم ہوتی ہے، ملزم کو یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس پر الزام کیا ہے، پیسے ادھر سے ادھر گئے، ادھر سے ادھر آئے، یہ کہانیاں ہیں، فرد جرم بتائیں؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ رقم موجود ہونے کا معاملہ ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پھر یہ دو الزامات ہو گئے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ بظاہر ایسا ہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بیس سال پرانا کیس ہے، ابھی تک بظاہر کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا معلوم کرنے میں مزید پچاس سال لگیں گے؟ جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ کیا ملزمان نے عوامی عہدے کا استعمال کرتے ہوئے کوئی فائدہ اٹھایا؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کیے گئے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پورا جملہ بولیں پھر کیا ہوا، الزام کیا ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس دوران عام لوگ فارن کرنسی صرف پاکستانی روپے میں تبدیل کرکے نکال سکتے تھے جبکہ ملزمان نے فائدہ اٹھایا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اٹھانوے سے دو ہزار سترہ آگیا مگر نیب پرچیزیں واضح نہ ہوئیں۔

جسٹس مشیرعالم نے پوچھا کہ حدیبیہ کے اکاوئنٹس میں جس صدیقہ سید کی رقم آئی تھی وہ کس نے نکلوائی، اسحاق ڈار نے یا کسی اور نے؟ اس بارے میں کیا ثبوت ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی نے نکوائے تھے مگر چونکہ اکاؤنٹس اصل نہ تھے اس لیے صدیقہ سید نے نہیں نکلوائے تھے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ یہی تو نیب نے معلوم کرنا تھا کہ کس نے نکلوائے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ دستخط دیکھ کر معلوم کرلیتے، ان دستخطو ں کا فرانزک کرلیتے، جے آئی ٹی میں تو ضمنی شواہد ہیں، اصل بنیادی شواہد بتائیے۔ جے آئی ٹی نے کچھ کیا اور نہ ہی نیب نے کچھ کیا، آپ صرف بیانات پڑھ رہے ہیں۔

جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ کم ازکم کسی اکاوئنٹ ہولڈر کا دستخط ہی لے لیتے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ جن کے اکاؤنٹس کھولے گئے ان کا انکم ٹیکس ریکارڈ ہی نکال لیتے، یہ ثابت کرنا نیب کوہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اکاؤنٹس ہولڈرز کو سوالنامہ بھیجا تھا مگر جواب نہیں دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ابھی تک سمجھ نہیں آ رہا کہ فرد جرم کیا ہے، اگر اکاؤنٹس ہولڈرز کی رقم غیرقانونی تھی اور انہوں نے حدیبیہ میں لگادی تو اس میں جرم کیا ہوگا؟

نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 164کے بیان میں اسحاق ڈار نے ان رقوم کے نکلوانے کا اعتراف کیا ہے، عدالت اجازت دے تو پڑھ لوں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ضرور پڑھیں اور یہ بھی بتائیں کہ کیا وہ بیان بطور ملزم تھا اور کیا یہ بیان کسی شریک ملزم کے خلاف بطور ثبوت استعمال ہو سکتا ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ بطور ملزم بیان تھا اور استعمال ہوسکتاہے تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ ملزم کا بیان شریک ملزم کے خلاف بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جا سکتا صرف بیان دینے والے کو گواہ کے طور پر کٹہرے میں لایا جاسکتاہے۔

نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اسحق ڈار کے بیان کے مطابق یہ سارے اکاؤنٹس اس نے شریف خاندان کی ہدایات پر کھولے اور رقم باہر منتقل کرنے کے لئے اپنے بھانجے موسی غنی کے ذریعے منی لانڈرنگ کی۔ جسٹس مشیرعالم نے پوچھا کہ کیانیب نے اب ان تمام بنک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ حاصل کر لیا ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے مثبت جواب دیا تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ ریکارڈ سنہ دوہزار میں بھی دستیاب تھا۔ بتائیں اسحاق ڈار کو کیا فائدہ ہوا جب رقم شریف خاندان کی تھی اور انہی کے پاس گئی؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وہ وزیرخزانہ بن گئے۔ پراسیکیوٹر نے اسحق ڈار کا بیان پڑھ کر بتایا کہ یہ اعترافی بیان پچیس اپریل سنہ دوہزار کو مجسٹریٹ کے سامنے قلمبند کیا گیاتھا۔

جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ قانون کے مطابق ایسا بیان صرف نیب عدالت یا چیئرمین کے سامنے رکارڈ کیا جا سکتا تھا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے قانون اس بارے میں خاموش ہے۔ جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ قانون دوبارہ پڑھ لیں ایسا ہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس بیان کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ قانون میں ترمیم کرلی گئی تھی اس لیے بیان مجسٹریٹ کے سامنے بھی دیا جاسکتا تھا۔ جسٹس قاضی فائز کہا کہ بیان پچیس اپریل اور قانو ن میں ترمیم پانچ جولائی کو کی گئی، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس بیان کی وجہ سے ترمیم کی گئی۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اگر اسحاق ڈار کی صدارتی معافی ختم کردی جائے تووہ بطور ملزم کھڑا ہوگا مگر نیب عدالت میں اس کی استدعا نہیں کر رہا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آئین کے مطابق ملزم کے بھی حقوق ہیں طویل عرصے بعد دوبارہ کیس کھولتے ہوئے ان کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، بتایا جائے کہ ملزم کے حقوق زیادہ متاثر ہوئے یا ریاست کے، اس پر بھی معاونت کریں۔ جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ ملزم کو جلاوطن کیے جانے سے فائدہ کس کو ہوا۔ عدالت کو زائدالمعیاد اپیل دائر کرنے پر مطمئن کرنے پر کل دلائل دیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).