تمہارا شوہر تمہیں مارے تو مزاحمت نہ کرو؛ چینی سکول


چین میں حالیہ برسوں کے دوران خواتین کو اچھے اخلاق کی ترغیب دینے کے لیے تربیتی مراکز کی تعداد بڑھی ہے۔ یہاں انھیں بتایا جاتا ہے کہ نسوانیت اور کرئیر ساتھ ساتھ نہیں چلتے، یہاں خواتین کو عام طور پر چھوٹے موٹے کام کرنے کی ترغیب کی جاتی ہے۔

جب یہ خبر سامنے آئی کہ شمالی چین کے علاقے فیوشن میں موجود روایتی اور کلچرل انسٹی ٹیوٹ میں خواتین کو اخلاقیات سکھائی جا رہی ہیں تو اس پر پورے ملک میں غصے کا اظہار کیا گیا۔ جن خواتین نے ان سکولوں میں تربیت حاصل کی انھیں وہاں کچھ اس قسم کے پیغامات دیے گئے۔

  • ’کرئیر بنانے والی خواتین کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔‘
  • ’خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی سوسائٹی میں نچلے درجے پر رہیں اور انھیں اوپر جانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔‘
  • ’خواتین کو اپنے والد، شوہر اور بیٹوں کی اطاعت کرنی چاہیے۔‘
  • ’جب تمھارا شوہر تمھیں مارے تو مزاحمت کبھی مت کرو اور جب جھڑکے تو اس سے کبھی بحث مت کرو۔‘
  • ’اگر عورت تین سے زیادہ مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے گی تو اسے بیماری ہو سکتی ہے اور وہ مر سکتی ہے۔‘

سرکاری سطح پر فوشن میں شعبہ تعلیم کے بیورو کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ‘اس ادارے کی تعلمیات سماجی اخلاقیات کے متصادم ہیں۔’ چینی پریس اور سوشل میڈیا کی جانب سے دباؤ کے بعد حکام نے چھ سال سے قائم اس انسٹی ٹیوٹ کو بند کر دیا۔’

17 سالہ جِنگ فقط ایک بار ہی فوشن سینٹر میں گئی تھیں۔ بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب وہ تیرہ برس کی تھیں تو ان کی ماں نے ان سے کہا کہ وہ بہت شرارتی ہیں۔ پھر انھوں نے جِن کو اسی انسٹی ٹیوٹ میں اس امید کے ساتھ بھجوایا کہ ان میں نظم وضبط پیدا ہوگا۔ جِنگ کی والدہ کی طرح جو شہر کے نواح میں رہتی تھیں اور کم تعلیم یافتہ تھیں، بہت سے والدین اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھجواتے ہیں۔ جِن کہتی ہیں کہ انھیں اب بھی تربیت کا وہ حصہ یاد ہے جب ہاتھوں پر کچھ بھی پہنے بغیر ٹوائلٹ صاف کرنے کو کہا جاتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ‘کتنا قابل نفرت ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ انھیں سکھایا جاتا تھا کہ یہ وہ سب ہے جو عورت کو کرنا ہوتا ہے اور عورت کی پیدائش مرد کی خدمت کے لیے ہوئی ہے۔ جِنگ کو اب تک سمجھ نہیں آیا کہ انھیں ٹوائلٹ کی صفائی کے لیے دستانے کیوں نہیں دیے جاتے تھے۔ نہ ہی وہ یہ سمجھ پائی ہیں کہ اس سارے تربیتی عمل میں اس قدر غیر ضروری محنت کیوں کروائی جاتی تھی۔ ایک اور اہم حصہ یہ بھی تھا کہ سٹوڈنٹس اپنی غلطیوں کا والدین اور بزرگوں کے سامنے اعتراف کریں۔

جِنگ نے بتایا کہ درسی نصاب میں قدیم اصولوں کو پڑھایا جانا، گھریلو امور کی تربیت اور سائیکو تھراپی کے طرز پر مختلف سیشنز بھی شامل تھے۔ جِنگ کی نظر میں سب سے زیادہ برا عمل وہ ہوتا تھا جب انھیں کلاس میں ایسی عورتوں کے ویڈیو انٹرویز دکھائے جاتے تھے جو یہاں سے تربیت لے چکی ہوتی تھیں۔

جِنگ نے ان انٹرویوز کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خواتین دعویٰ کرتی تھیں کہ انھوں نے ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ سیکس کیا جس کی وجہ سے ان کے پورے جسم پر زخم بن گئے۔ لیکن پھر جب انھوں نے ‘ٹریڈیشنل ورچوز’ میں تربیت حاصل کی تو وہ معجزاتی طور پر ٹھیک ہو گئیں اور اچھی عورتیں بن گئیں۔

جِنگ کہتی ہیں کہ سات دنوں پر مشتمل اس تربیتی کیمپ میں ایک نارمل انسان کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میں اس برین واشنگ کو مزید نہیں جھیل سکتی تھی۔ اس لیے چوتھی رات میں لوہے کے جنگلے پر چڑھی اور بھاگ گئی۔’ بیجنگ اور شنگھائی میں موجود بہت سے پڑھے لکھے اور سفید پوش لوگوں کے لیے اس قسم کے تربیتی مراکز کی موجودگی ایک دھچکا تھی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ چین کے چھوٹے شہروں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں اس قسم کی فرسودہ روایات اب بھی موجود ہیں۔ رواں سال مئی میں جیوجیانگ شہر میں طالبات کو عورت کے کنوارے پن کی اہمیت پر لیکچر دیا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ چست لباس عریانیت کے قریب ہوتا ہے۔ اسی طرح سنہ 2014 میں ڈونگوان شہر میں اراکین کو یہ بھی پڑھایا گیا کہ کریئر بنانے والی ایک عورت کو شاید اپنی چھاتی اور بچہ دانی بھی کاٹنی پڑے۔

سنہ 2005 میں چین میں کام کرنے والی ایک خاتون نے ساتویں منزل سے چھلانگ لگا کر جان دے دی تھی۔ ان کی جانب سے اپنی زندگی پرعصمت کو فوقیت دیے جانے کے عمل کو بہت سراہا گیا تھا۔ چین میں ہزاروں برس تک قائم رہنے والے جاگیردارانہ دور میں خواتین کو فضائل اور نیکی کی تربیت دینے والے یہ سینٹرز قابل قبول سمجھے جاتے تھے۔ والد، شوہر اور بیٹے کی اطاعت، اپنے کنوارے پن کو اہمیت دینا اور اس کی حفاظت کرنا اور اس بات کو سمجھنا کہ جو عورت قابل نہیں ہے وہ نیکوکار ہے، اس تربیت کا حصہ تھا۔ یہ اصول خواتین کو سکولوں اور گھروں میں سکھائے جاتے تھے جن کی مدد سے چین کے قدیم دور میں عورتوں کو محکوم بنایا اور دبایا جاتا تھا۔

پھر چیئرمین ماؤ نے یہ اعلان کیا کہ ‘عورت آدھے آسمان کو پکڑے۔’ یہ وہ وقت تھا جب سنہ 1949 میں پیپلز ریپبلک آف چائنا یعنی موجودہ چین وجود میں آیا۔ پھر خواتین نے سماجی سطح پر اوپر آنا شروع کیا۔ حالیہ عرصے میں سابقہ دور جیسے اداروں کا چلایا جانا بہت سے لوگوں کے لیے تشویش کا باعث تھا کہ کہیں پھر سے جاگیردارانہ خیالات دوبارہ نہ پنپنے لگیں۔ لیکن شاید ان تربیتی اداروں کے پیچھے مکمل طور پر نظریات کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔

فیوشن سینٹر کی مثال لیں جس کی منظوری عوامی فلاح کے لیے فیوشن سول افیئر بیورو نے دی تھی۔ لیکن اس ادارے نے کبھی بھی ان سکولوں کو چلانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کے خالقوں نے ملک کے مختلف شہروں میں ان سکولوں کو کھولا اور ان کی بندش سے قبل تک یہاں سے 10 ہزار طالبات کو تربیت دی جا چکی تھی۔

ادارے کے ہیڈ ماسٹر کانگ جنشنگ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک پروموشنل ویڈیو میں کہا گیا کہ یہ ادارے مکمل طور پر اس چندے سے چلائے جا رہے تھے جو کہ طالبات ہی ادا کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ ایک سائڈ لائن بزنس بھی چلا رہا تھا جس میں چین کے روایتی لباس تیار کیے جاتے تھے اور انھیں آن لائن فروخت کیا جاتا تھا اور کلچرل ایونٹس کے لیے سپلائی بھی کیا جاتا تھا۔

اس سینٹر میں ان خاندانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں نو عمر لڑکیوں کی تربیت میں مشکل کا سامنا ہو۔ یہ ادارے والدین سے وعدہ کرتے ہیں کہ یہ ان بچیوں کو ان کی روایات کے مطابق ڈھال لیں گے۔ یہ ادارے دفتر میں بہتر ماحول کی تربیت سے متعلق بھی اشتہارات دیتے ہیں۔ ڈونگوآن میں ایسے ہی ایک اور سینٹر کو جو پرفارمنس اور پرافٹ کے نام پر کھولا جا رہا تھا اور طالبات کے داخلے کر رہا تھا، سنہ 2014 میں حکومت کی طرف سے بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب بھی بہت سے ایسے ادارے ہیں جہاں ایسی تربیت دی جا رہی ہے۔

لیکن کیا اس قسم کے خیال کو چین میں پزیرائی مل سکتی ہے؟ زیادہ تر طالبات کم تعلیم یافتہ ہیں ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو اپنے شوہر کے رویے کی وجہ سے اپنی شادی شدہ زندگی سے خوش نہیں ہیں۔ یہ خواتین اسی قسم کے مسائل کا شکار خواتین کے ساتھ مل کر اور ان اداروں میں تربیت لے کر سکون محسوس کرتی ہیں۔ جہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ خواتین مردوں سے کم تر ہیں۔ یہ بظاہر ان کو ان کے مسائل کا حل بتاتی ہیں۔ ایک لیک ہونے والی ویڈیو میں ایک طالبہ نے کہا کہ ان کے شوہر کو امید ہے کہ وہ یہاں ان کا بحیثیت خاتون ’نرم‘ اور تابع انداز لوٹ آئے گا۔ پھر بعد میں یہی خواتین ایک گروہ کی صورت میں نئی آنے والی طالبات کو بلا معاوضہ پڑھاتی ہیں۔

دیہی خواتین سے متعلق ایک رسالے کی مدیر اعلیٰ زائی لیہوا کا کہنا ہے کہ بنیادی مدد پالیسی بنانے والوں کی طرف سے ملنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ دیہی خواتین جنسی تشدد اور جائیداد میں حصہ نہ ملنے جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ چین میں اخلاقی سکولوں کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ انھیں بہت سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ تاریخ رخ موڑا نہیں جا سکتا اور چینی معاشرہ اب صنفی مساوات کی جانب بڑھ رہا ہے اور درست یہ ہے کہ اس پر ہنسیں اور اسے بھول جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp