ملالہ کی ڈائری: ’آنر بورڈ پر شاید اس سال کسی کا نام نہ لکھاجائے‘


سنیچر، چوبیس جنوری، آنر بورڈ پر شاید اس سال کسی کا نام نہ لکھاجائے

ہمارے سالانہ امتحانات چھٹیاں ختم ہونے کے بعد ہوں گے، لیکن یہ اس وقت ہوں گے جب طالبان لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت دیں تیاری کرنے کے لیے ہمیں کچھ چپٹر بتائے گئے ہیں مگر میرا دل پڑھنے کو نہیں کررہا ہے۔
کل سے فوج نے بھی مینگورہ میں تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ جب درجنوں سکول تباہ ہوگئے اور سینکڑوں بند ہوئے تو اب جاکے فوج کو حفاظت کا خیال آیا۔ اگر وہ صحیح آپریشن کرتے تو یہ نوبت پیش ہی نہ آتی۔

مسلم خان نے کہا ہے کہ وہ ان تعلیمی اداروں پر حملہ کریں گے جن میں فوجی ہوں گے۔ اب تو سکول میں فوجیوں کو دیکھ کر ہمارا خوف اور بھی بڑھ جائے گا۔
ہمارے سکول میں ایک بورڈ لگا ہواہے جس سے آنر بورڈ کہا جاتا ہے۔ اس بورڈ پر ہر سال اس طالبہ کا نام لکھا جاتا ہے جو سالانہ امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتی ہے۔ لگتا ہے کہ اس بار آنر بورڈ پر کسی کے نام کے لکھنے کا موقع آئے ہی نہیں۔

پیر، چھبیس جنوری، ہیلی کاپٹروں کا خوف اور ٹافیوں کی بارش

آج صبح سویرے توپ کے گولوں کی آوازیں سن کر نیند سے جاگ اٹھی۔ بہت زیادہ گولہ باری ہوئی ہے۔ پہلے ہم ہیلی کاپٹروں کے شور سے ڈرتے تھے اور اب توپ کے گولوں سے۔

مجھے یاد ہے کہ جب آپریشن شروع ہوا تھا اس وقت جب پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر ہمارے گھروں کے اوپر سے گزرے تھے تو ہم خوف کے مارے چھپ گئے تھے۔ میرے محلے کے تمام بچوں کی یہی حالت تھی۔

ایک دن ہیلی کاپٹروں سے ٹافیاں پھینکی گئیں اور پھر یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔ اب میرے بھائی اور محلے کے دوسرے بچے جونہی ہیلی کاپٹر کی آواز سنتے ہیں تو وہ باہر نکل کر ٹافیوں کے پھینکے جانے کا انتظار کرتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔
تھوڑی دیر پہلے ابو نے خوشخبری سنائی کہ وہ ہمیں کل اسلام آباد لے کر جارہے ہیں۔ ہم سب بہن بھائی بہت خوش ہیں۔

بدھ، اٹھائیس جنوری، میں نے امی اور ابو کے انکھوں میں آنسو دیکھے

ابو نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہم کل ہی اسلام آباد آگئے۔ راستے میں ہمیں بہت ڈر لگ رہا تھا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ طالبان رستے میں تلاشی لیتے ہیں۔ لیکن اچھا ہوا کہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
اسکے بجائے فوج نے ہماری تلاشی لی۔ جب سوات کا علاقہ ختم ہوگیا تو ہمارا خوف ختم ہوگیا۔ ہم اسلام آباد میں ابو کے ایک دوست کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔

میں پہلی بار اسلام آباد آئی ہوں، یہ ایک خوبصورت شہر ہے، یہاں بڑے بڑے بنگلے اور صاف ستھرے سڑکیں ہیں لیکن اس میں وہ نیچرل بیوٹی نہیں ہے جو میرے سوات میں ہے۔
ابو ہمیں لوک ورثہ لے کر گئے۔ یہاں میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ سوات میں بھی اسی قسم کا میوزیم ہے لیکن معلوم نہیں کہ وہ محفوظ رہ بھی سکے گا یا نہیں؟

لوک ورثہ سے نکل کر ابو نے ایک بوڑھے شخص سے ہمارے لیے پاپ کارن خریدا۔ اس شخص نے جب پشتو میں بات کی تو ابو نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اسلام آباد کے رہنے والے ہیں تو اس بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اسلام آباد پشتونوں کا ہوسکتا ہے؟
اس شخص نے بتایا کہ اس کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے جہاں پر فوجی آپریشن شروع ہوگیا ہے۔ ’میں گھر بار چھوڑ آکر یہاں آیا ہوں۔ ‘ اس وقت میں نے ابو اور امی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ لیے۔


اسی بارے میں

ملالہ کی ڈائری کیسے شروع ہوئی؟

پہلی قسط: ملالہ کی ڈائری: سکول جانا ہے۔ ۔ ۔

دوسری قسط: ملالہ کی ڈائری: ’شاید دوبارہ سکول نہ آسکوں‘

تیسری قسط: ملالہ کی ڈائری: بلڈنگ کو کیوں سزا دے رہے ہیں

ملالہ کی ڈائری: ’آنر بورڈ پر شاید اس سال کسی کا نام نہ لکھاجائے‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).