کلیجی کی شوقین بلی، دم کیا ہوا پانی اور ڈینگی بخار


آج سے پچیس سال پہلے جب میرے بڑے بیٹے رشک (رشی) کی پیدائش ہوئی تو انکشاف ہوا کہ اس کے دونوں پیر ٹیڑھے ہیں، ڈاکٹرز نے اسے ماں میں وٹامن اور کچھ اور چیزوں کی کمی قرار دیا، جب کے کچھ رشتے دار خواتین نے اسے ماں میں ایمان کی کمی سے تعبیر کیا، کیوں کہ ہم دورانِ حمل چاند اور سورج گرہن کے دوران بھی گھر سے باہر نکلے تھے، ایک خاتون نے کہا فلاں منت مان لو کسی نے مزار پر جانے کا مشورہ دیا اور کسی نے کچھ وظائف بتائے، لیکن ہم نے صرف ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کیا، پہلے چھ ماہ تک رشی کو پلاسٹر چڑھتا رہا، اس کے بعد اسے سلاخوں والے جوتے پہنائے گئے اور پھر کچھ ماہ اس نے کوئی مخصوص جوتے پہنے، اور پھر ان سب کے بعد جب اس نے چلنا شروع کیا تو عام بچوں کی طرح ٹھیک قدموں سے چل رہا تھا۔

ایسے صبر آزما مرحلے والدین کی زندگی میں آتے ہی ہیں اور یہ ہی دن ہو تے ہیں جب مجھے فطرت پر بہت پیار آتا ہے، اور میرے اندر شکر گزاری کا احساس بڑھ جا تا ہے کہ ہم اتنے بہت سارے دن کتنا سکون اور خوشی سے رہتے ہیں سب چیزیں ترتیب سے چلتی ہیں، لیکن اگر بچوں، میاں یا میری طبیعت خراب ہو جا ئے تو سب کچھ کتنا بے ترتیب اور بے سکون ہو جا تا ہے اور دماغ کا یہ ہی اضطراب مجھے بیتے پرسکون دنوں کو اہم بنا کر میرے اندر شکر گزاری کا احساس اجاگر کرتا ہے اور مجھے یقین ہو تا ہے کہ یہ دن صرف ہماری سیکھ کے لیے ہیں جو جلد یا بدیر گزر ہی جا ئیں گے۔ پچھلے دنوں رشی بیمار ہوا تو مختلف ٹیسٹ کرا ئے گئے، سب کلیئر تھے میرا ذہن ایک ہی بات سوچ رہا تھا کہ ضرور مجھ سے یا رشی سے کوئی بہت بڑی غلطی ہو ئی ہے، مجھے یاد آیا کہ ہمارے فلیٹ کے باہر روزانہ ایک بلی صبح کے وقت آتی تھی وہ سوائے کلیجی کے کچھ نا کھا تی تھی، وہ کیوں کہ پریگنینٹ تھی اس لئے مجھے اس کا خیال رکھنا تھا، اس کے نخرے بھی سہنے تھے، وہ فلیٹ کے باہر کافی غلاظت بھی کرتی تھی، جو مجھے ہی صاف کرنا پڑتی کیوں کہ برابر والی پڑوسن صفائی ستھرائی کے معاملے میں کافی سخت تھیں، اور مجھے باتیں سناتی تھیں۔

پھر ایک دن میں نے اس کے ساتھ چار ننھے بچے دیکھے اور سکون کا سانس لیا، ایک دو دن بعد وہ پھر میرے دروازے پر آکر کھڑی ہو گئی، پڑوسن نے کہا کہ میں اس کو منہ لگا نا بند کردوں ورنہ اس کے چار بچے بھی پالنے پڑیں گے اور ان کا گند بھی ہو گا، میں نے رشی سے کہا بلی اور بچوں کو کہیں دور چھوڑ آؤ ہماری وجہ سے سارے فلیٹس کے مکین پریشان ہیں، رشی نے کہا آپ اسے کچھ کھانے کو مت دیں یہ کتنے دن آئے گی مایوس ہو کر یہ خود ہی کسی دن بچوں کو لے کر چلی جا ئے گی، مجھے یہ تجویز اچھی لگی دو دن تک بلی آتی رہی مگر ایک دو گھنٹے انتظار کے بعد مایوس ہو کر چلی جا تی، تیسرے دن وہ نہیں آئی، رشی کے بخار کو بھی تیسرا روز تھا میرا کام ویسے ہی بہت بڑھ گیا تھا اس لئے میں نے سکون کا سانس لیا۔ اب رشی کے بخار کو پندرہ روز ہو چکے تھے بخار 104 رہتا تھا، جس کی وجہ سے اس کی حالت تیزی سے بگڑ رہی تھی، پھر ٹیسٹ کرائے گے تو معلوم ہوا کہ اسے چکن گونیا اور ڈینگی دونوں ہیں، وجہ تو ظاہر ہے کوئی مچھر ہی تھا۔ لیکن مجھے رہ رہ کر اس بلی کا خیال آرہا تھا، بچوں کو دودھ پلانے کے لیے اسے غذا کی ضرورت تھی، پتہ نہیں اسے کسی نے کھانا دیا ہو گا کہ نہیں یا اس کی گندگی کے خوف سے سب ہی نے اسے اپنے دروازے سے بھگا دیا ہو گا۔

تیز بخار کے بعد ایک دم بے تحاشہ پسینے کے اخراج کی وجہ سے رشی کی حالت غیر ہو جاتی اسے ایمر جنسی میں لے کر بھا گنا پڑتا، میری بہنیں فون پر مجھے مختلف وظائف اور آیات کا ورد کرنے کے ساتھ اسے دوا اور پانی میں پڑھ کر پھونکنے کی مسلسل ہدایات کر رہی تھیں اور خود بھی دعاؤں میں مصروف تھیں۔ مجھے میری پڑوسن نے ایک آزمودہ وظیفہ بتا یا جو ان کے نزدیک خدا کا پسندیدہ ہے اور خدا فوراً بندے کو شفا عطا کرتا ہے لیکن میرا خدا تو میرے دل میں جا گزیں تھا جو مجھے ازل سے اہل زمیں پر مہربانی کرنے کے بدلے میں مہربان ہو نے کی نوید سنا رہا تھا، اور میں نے خود کو اس کی مہربانی سے دور کر دیا تھا۔ میرے دل میں بسنے والا مہربان خدا اپنے بندوں سے بھی مہربانی ہی چاہتا ہے۔ اس کے رسولؐ نے بھی بیماریوں کے علاج کے لیے طبی نسخے ہی تجویزکیے۔ جنہیں ہم طبِ نبوی کے نام سے جانتے ہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اسے پینا ڈول اور پھلوں کے جوسز دیے جا رہے تھے۔

میں کسی وظیفے کی جانب راغب ہو ئی، نہ کو ئی آیت پڑھ کر پانی یا دوا پر پر دم کیا، حالانکہ ایک بار میں نے شدید معاشی پریشانی میں گھرے ہو نے کے باوجود اپنی خالہ کو یہ کہہ کر وظیفہ پڑھ کر حالات کی بہتری کو رد کر دیا تھا کہ یہ آزمائش اور امتحان کی گھڑی ہے، اس سے اسمارٹلی گزرنا ہے، کسی سفارش سے نہیں ہاں اگر میرے بچے کو کبھی کوئی بیماری ہو ئی تو شاید میں کسی دریا میں ایک ٹانگ پر کھڑی ہو کر بھی کو ئی وردکر لوں، لیکن میں ہدایت کی کتاب کو اپنے کسی ذاتی مقصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتی اب جب کہ میرا بیٹا شدید تکلیف میں تھا تب بھی میں اپنی کسی غلطی کے سدھار کی سعی میں مصروف تھی، رات کے چار بجے تھے رشی کی حالت بہت خراب تھی میں اس کے سر پر پٹیاں رکھ رہی تھی، منجھلا بیٹا دو بجے ہی تو سویا تھا، اور چھوٹا تو یوں بھی نیند کا کچّا ہے۔

مجھے دور سے اذان کی آوازسنائی دی اور اس کے ساتھ ہی ایک مانوس آواز، میں نے دوڑ کر فرج سے کلیجی نکال کر اوون میں گرم کی، اب آواز قریب آرہی تھی، میں نے دروازہ کھولا رات کے اندھیر ے میں دو آنکھیں چمک رہی تھیں، میں نے پلیٹ بلی کے آگے رکھ دی، اس کے ساتھ ہی تین اور بچے بھی تھے، میں نے دودھ ہلکا سا گرم کیا اور پیالے میں بچوں کے آگے رکھ دیا مجھے اچانک رشی کا خیال آیا دوڑ کر اس کے پاس گئی اس کے ماتھے کو چھوا رشی کا بخار اتر چکا تھا اور اس کے ماتھے پر تیزی سے بہنے والے پریشان کن پسینے بھی نہیں تھے جو اس کی جان نکال دیا کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).