قدیم ٹوٹ رہا ہے، نیا ابھی پیدا نہیں ہوا


پڑھنے لکھنے والے حلقوں میں مذہب اور سیکولرزم کی بحث ایک بار پھر بپا ہے۔ اصطلاحوں کے اس جنگل میں بہت کچھ گڈ مڈ ہو رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ اب دنیا میں ذرائع مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تک آسان رسائی نے لوگوں کو بہت حد تک مضبوط بنا دیا ہے۔ وہ کچھ دائروں میں پہلے کی نسبت اب زیادہ بااختیار ہیں۔ ان کے درمیان براہ راست رابطے کے مواقع ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے بارے میں صرف متجسس ہی نہیں بلکہ باہمی تفہیم کا عمل بھی برابر جاری ہے۔ کسی بھی خطے کے لوگوں کے متنوع رجحانات سے آگاہی کے لیے اب ”روایتی ترجمان واسطوں” پر انحصار کم ہو رہا ہے۔ ان کی اجارہ داری ٹوٹ رہی ہے۔ بہت سے نظریوں کا زوال ایک مخصوص رفتار سے وقوع پذیر ہے۔ کلیشوں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ یہ تاریخ کا قدرتی عمل یا سفر ہے، جس کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔

انسانوں کے درمیان رابطوں کی اس آسانی کے نیتجے میں فکری بنیادوں پر ایک ہی وقت میں تخریب وتعمیر (ڈی کنسٹرکشن اور ری کنسٹرکشن) کا عمل جاری ہے۔ بہت سے روایتی تصورات شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونےوالا خلا نئے مفروضات سے پُر ہو رہا ہے۔ طبعیات اور حیاتیات کے میدان میں کچھ ایسی نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں جو بہت سے روایتی مابعد الطبعیاتی مفروضات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ حیاتیات کی نسبت طبعیات کا اس میں کردار زیادہ ہے۔ اور یہ بڑھتا چلا جائے گا

اب جو یہ بیانیوں کی کشمکش ہے، اس میں تین طرح کے لوگ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اول وہ لوگ ہیں جو کسی حد تک ناسٹیلجک ہیں۔ انہیں حال اور مستقبل کی نسبت ماضی دلکش دکھائی دیتا ہے، ایسے لوگ ماضی کا اس کے اکثر مفروجات سمیت احیاء۔۔۔ بلکہ ایک قدم آگے، اس کی بالادستی چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دلیلیں نئے اور باخبر لوگوں کو زیادہ اپیل نہیں کرتیں۔ وہ اس جانب توجہ کم دیتے ہیں۔ یہ چیز ناسٹیلجیا کے شکار ان لوگوں کو اذیت میں مبتلا کرتی ہے اور وہ پیہم تلملاتے رہتے ہیں۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو ماضی کی عظمتوں کے خوابوں سے بہت حد تک چھٹکارا پا چکے ہیں، وہ تاریخ کے بہاو کے ساتھ چلنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں، وہ آج کے مسائل کے حل کے لیے دلیل بھی حال ہی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کا محاورہ سہل اور زود فہم ہے، نئی نسل اسے سمجھتی ہے اور اس کا اثر لیتی ہے۔ اس اثر پذیری کا عمل کہیں تیز اور کہیں سست ہے، روایت پسند اسے کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

ایک قسم اور ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر جدیدیت کے حامی ہیں لیکن روایت پسندی میں ان کے لیے کشش ابھی بالکل ختم نہیں ہوئی۔ یا پھر وہ روایت کو یکسر مسترد کر دینے کی ہمت خود میں نہیں پاتے۔ وہ کوئی درمیانی راہ نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ قدیم وجدید کا ملن کرانا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسے لوگ خود کو تھکانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔ تاریخ میں ان کی پوزیشن واضح نہیں ہے۔ اس لیے یہ لوگ بظاہر گھاٹے میں نظر آتے ہیں۔

نظریوں کے تصادم میں شدت کی ابتداء تو کئی دہائیاں پہلے ہو چکی تھی۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی مسلسل جاری ہے، لیکن اب جدید و قدیم کی ایک واضح لکیر خود بخود کھچ رہی ہے۔ روایت پسندی کے رومان میں مبتلا افراد کی اوسط عمر اب اپنی انتہا پر ہے۔ انہیں نئے زرخیز ذہن مناسب تعداد میں میسر نہیں ہے۔ ان کے پاس آج کےسماج کو اپیل کرنے کے لیے محاورے اور دلیل کا شدید فقدان ہے۔ دوسری جانب نئے آدرش تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں، گو کہ بہت کچھ ابھی بے نظم ہے لیکن فکری افراتفری کے اس مرحلے کے بعد کا مرحلہ نسبتاً بہتر ہوگا۔ نئی روایتیں نمو پائیں گی، لوگوں کا ان کے ساتھ رومان بڑھے گا، پھر وہ کچھ لوگوں کا ناسٹلجیا بن جائیں گی۔ اس کے بعد انہیں نئے ‘باغیوں’ کا سامنا ہوگا۔ یہ ہوتا آرہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ دوام صرف تخریب اور تعمیر کے عملِ مسلسل ہو ہے۔ میرے خیال میں یہ نکتہ مفہوم ہو جائے تو ذہنی الجھنیں کافی سُلجھ جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).