کم عمر لڑکیوں کے جنسی اعضاء کاٹنے کی بہیمانہ رسم – ایف جی ایم


آج بات تیسری دنیا کے کسی ایسے ملک کی نہیں ہو رہی جہاں سماج میں صنفی امتیاز اور عورتوں کو کمتر مقام پہ رکھنا عام ہے۔بلکہ امریکہ کی ریاست مشی گن میں کم عمر لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے کریہہ فعل ایف ایم جی (FMG)کے حوالے سے ہے جوکسی جاہل عطائی یا دائی نہیں بلکہ ایک چوالیس سالہ ڈاکٹر جمانا نگروالا کے ہاتھوں انجام پایا جو شہر کے مشہور ہسپتال ہنری فورڈ کے ایمرجنسی کمرے میں بطور فزیشن کام کرتی ہے۔ دی ہفینگن پوسٹ (4 /13/17)کے مطابق ڈاکٹر پہ الزام ہے کہ دو سات سالہ بچیوں کی ایف ایم جی سرجری کی جوحرفِ عام میں’’لڑکیوں کا ختنہ‘‘ کہلاتا ہے۔ان بچیوں نے اپنے انٹرویو میں اپنی شدید تکلیف کا ذکر کیا اور اس ڈاکٹر کی تصویری شناخت بھی کی جس نے یہ سرجری انجام دی۔ واضح ہو کہ ان بچیوں کے والدین اس عمل کے لیئے مینسیوٹا سے مشی گن’’ اسپیشل گرلز ٹرپ ‘‘کے نام پہ لائے تھے۔واضح ہو کہ ڈاکٹر اور ان بچیوں کا تعلق ایک ایسے سماجی گروہ سے ہے کہ جہاں یہ’’ عمل ‘‘ثقافت کا اہم ترین اور اکثر ضروری حصہ سمجھا جاتا ہے۔ایف ایم جی امریکا کے علاوہ دنیا کے اکثر ممالک میں غیر قانونی ہے۔اور اس کا مرتکب جیل کی سزا کا حقدار ہے۔ (جو امریکہ کے قانون میں دفعہ 116 ہے)  حالانکہ اس موضوع پر گفتگو کرنے سے عام طور پہ لوگ گریز کرتے ہیں۔لیکن کسی بھی رواج کو غلط ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوامی سطح پر آزادانہ گفتگو ہو۔

ایف جی ایم کیا ہے؟

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ان تمام طریقہ کار پہ مشتمل ہے کہ جس میں جزوی یا مکمل طور پر بچیوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء کو (بلیڈ یا قینچی کی مدد سے) بغیر کسی طبی جواز کے کاٹ دیا جاتا ہے۔ وہ اعضا (Clitoris)،(Libia Minora)، اور (Libia Majora) ہیں۔ اس کے علاوہ اس ضمن میں (infibulation) کا عمل بھی ہے کہ جس میں وجائنا کے سوراخ کو سوئی دھاگہ سے سینے کے بعد تنگ یا بند کر دیا جاتا ہے۔تاکہ شادی سے پہلے جنسی عمل کو روکا جا سکے۔
ایف جی ایم آخر کیوں کیا جاتا ہے؟
یہ تکلیف دہ اور بہیمانہ عمل صنفی امتیاز کی علامت ہے کہ جس کی مدد سے عورت کی جنسیت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جنسی حصوں کو جسم سے جزوی یا مکمل طور طور پہ نکال پھینکنے سے تصور کیا جاتا ہے کہ وہ صاف اور پاک کنواری دوشیزہ ہے کیونکہ یہ حصے’’ ناپاک اور غیر نسوانی‘‘ ہیں۔بعض سماجوں میں تو اس کی تکمیل شادی کے لئے ضروری قرار دی جاتی ہے لہذا اکثر خواتین بخوشی یہ کام کرواتی ہیں۔ کیونکہ شادی سماج میں اعلی رتبہ کی علامت تصور کی جاتی ہے ۔ حالانکہ اس عمل کے نتیجہ میں خون کا جاری ہونا، پیشاب کے عمل میں تکلیف اور پیچیدگیوں کے علاوہ بچے کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ایف جی ایم کے عمل کا شکار اس وقت دنیا میں دو سو ملین بچیاں اور عورتیں ہیں جبکہ تین ملین کو اس صورتحال کا خدشہ ہے۔اور اس وقت امریکہ میں آدھ ملین بچیوں اور عورتوں میں اس عمل کے ہونے کا خطرہ ہے۔ اس کی وجہ دنیا کے دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین کی تیزی سے بڑھتی آبادی ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق اس عمل کا احتمال پچھلے پچیس تیس برس میں تیس گنا بڑھ چکا ہے۔باوجود قانونی سختیوں اور امتناعی منادی کے یہ طریقہ دنیا کے تیس ممالک میں رائج ہے جن کا تعلق افریقہ، مڈل ایسٹ اور ایشیا سے ہے۔ان ممالک سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی وجہ سے آج یہ طریقہ یورپ، آسٹریلیا اور نارتھ امریکہ میں بھی مروج ہے۔

پہلی بار ایف ایم جی کی اصطلاح ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے استعمال کی لیکن اس عمل کی ابتدا کی تاریخ حتمی نہیں۔ عورتوں کی جنسیت کو قابو میں رکھنے کا عمل انسانی تاریخ میں نیا نہیں رہا۔ لیکن ایف ایم جی کو پہلی بار پچیس قبل مسیح میں مشہور یونانی جغرافیہ دان (Strab) نے قدیم مصر میں دیکھا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ طریقہ سماج میں طبقاتی تفریق کی غرض سے اس وقت سے رائج ہوا کہ جب افریقہ کی غلام سیاہ فام عورتیں عرب میں داخل ہوئیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس کا تعلق قدیم زمانہ سے عورت کی بلوغت کے وقت سے اسکی دوشیزگی کی بقا، جنسی خواہشات اور رویہ کو قابو رکھنے سے ہے۔وجہ کچھ بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ممالک کہ جہاں یہ طریقہ بہت زیادہ مروج ہے۔ان میں صومالیہ (98%)، مصر (87%) کے علاوہ گھانا، نائجیریا، ایتھوپیا وغیرہ ہیں ۔اس سلسلے میں اکثر یہ موضوع زیرِ بحث رہا ہے کہ یہ قبیحہ رسم اسلام سے تعلق رکھتی ہے،جو درست نہیں ہے۔اس میں شک نہیں کہ اکثریت مسلم ممالک کی ہے۔مگر یہ طریقہ افریقہ کے غیر مسلم سماج کے علاوہ عیسائیوں اور دوسرے مذاہب میں بھی مستعمل ہے۔اسکے علاوہ ایتھوپیا میں مسلمان، عیسائی اور یہودیوں میں بھی یہ طریقہ عام ہے۔


یونیسیف کے مطابق ایف جی ایم کا عمل سینٹرل ایشیا میں محدود ہے۔ اور مراکش، الجیریا، لیبیا، سعودی عرب، عمان، اردن، شام اور ایران میں عام نہیں ہے۔اس کے علاوہ سینٹرل افریقہ میں بھی اس کا رواج ہے جہاں (Eritrea) میں اس کا تناسب 90 فی صد ہے۔ جو ایک عیسائی ملک ہے۔ ایتھوپیا میں یہودیوں کا صرف ایک گروپ بیٹا اسرائیل ہی ہے کہ جہاں یہ رسم جاری ہے۔جامعہ الازہر کے شیخ یوسف البدری، قاہرہ (مصر)نے عورتوں کے خلاف تشدد کے اس رویہ کو آنر ڈائریز(Honor Diaries) فلم میں موضوع بنایا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ عورتوں کی ختنہ اسلامی ہے لبنان کے شیعہ عالم آیت اللہ فدا اللہ نے کہا کہ اس کی اسلام میں اجازت اور گنجائش نہیں۔ یہ طریقہ اسلام سے پہلے کے عرب کا تھا۔ اور اسلام اس کو ناپسند کرتا ہے۔البتہ اس کے باوجود ایف ایم جی یمن کے زیدیوں، عمان کے ابادیس اور انڈیا اور پاکستان کے داؤدی بوہرہ فرقہ میں مروج ہے کہ جو شیعہ فرقہ کی شاخیں تصور کی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ عراق کے کرکک علاقہ میں 23 فی صد شیعہ لڑکیوں میں اس کا عمل ہوا ہے۔۔
آج سے کچھ سال قبل بھی اس تشدد کے عمل پہ گفتگو ٹیبو یا شرمناک سمجھی جاتی تھی۔آج ہیومین رائٹس ایکٹوسٹ اور اس عمل کا شکار خواتین اس پر کھل کر گفتگو ہی نہیں بلکہ اس پورے رواج کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ان میں ہی ایک نام ماریا طاہر کا ہے۔ جن کا تعلق کیمرج میسچولسٹ سے ہے۔ وہ بوہری فرقہ سے ہیں۔سات سال کی عمر میں ان کے والدین انہیں بمبئی انڈیا لے گئے جہاں وہ اس تشدد سے گزریں۔آج کل ماریا فیمیل جینٹائیل کٹنگ ٹاسک فورس میں شامل ہیں۔جو قانونی سطح پہ اس طریقہ کار کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ 1996 سے امریکہ میں ایف ایم جی غیر قانونی ہے اور 2013 سے فیڈرل قانون کے تحت وکیشن ٹرپ کے طور ملک سے باہر لے جا کر بچیوں میں اس عمل کو روکنے کا قانون بھی پاس ہو چکا ہے۔

33 Year old Activist Marya Taher

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس سلسلے میں ایم ایف جی کے عمل کو روکنے کا لائحہ عمل بنایا ہے اور مندرجہ ذیل نکات پہ کام ہو رہا ہے۔
1 ۔صحت سے متعلق پیشہ ور افراد میں تربیت، طریقہ کار اور پالیسی سے آگہی اور ان اداروں کو مضبوط کیا جائے تاکہ تشدد سے گذرنے والی بچیوں اور عورتوں کی طبی صحت اور ذہنی صحت کے لیے کونسلنگ حتمی ہو۔
2۔ اس کے طریق کار اور ہونے والے نتائج کے متعلق معلومات کی فراہمی اور اس کی روک تھام کے لیئے کیا کیا جائے۔ اور ان متاثر افراد کا خیال کس طرح رکھا جائے جو اس تشدد سے گذرے ہیں۔
3۔ اس سلسلے میں قانونی معاونت، مواد کی اشاعت، مقامی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بڑھائی جائے تاکہ اگلی نسلوں کو بچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).