بابا یکڑی، ڈونلڈ ٹرمپ اور ہماری پہچان


گزشتہ کالم پڑھ کر بہت سے قارئین کو بابا یکڑی کی شخصیت میں ڈونلڈ ٹرمپ کا عکس نظر آیا۔ حالانکہ ہم نے اس طرف خفیف سا اشارہ بھی نہیں کیا تھا۔ ہم نے تو فقط یہ عرض کیا تھاکہ ہمارے بابا یکڑی اپنے جنوں، تنگ نظری، انتہا پسندی، بے لچک اور جھگڑا لو طبیعت اور ہٹ دھرمی جیسے خصائص کی بنا پر گائوں میں یکڑی کے لقب سے ملقب کیے گئے، جو مقامی زبان میں انتہائی ضدی اور بے وقوف کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ یکڑی جی کی مضبوط شناخت یہ تھی کہ ان کی کوئی مثبت شناخت نہیں تھی۔ ہر دو کرداروں میں مماثلت کی غلط فہمی پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم نے ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ کے مصداق اپنے جدِ امجد کے ابنارمل اور منفی کردار کو آشکار کیا، ممکن ہے کہ پڑھنے والوں نے اسی محاورے کے تناظر میں برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے بیان کو لیا ہو۔ اس بیان میں تھریسامے نے ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کو افسوسناک اور عاجلانہ قرار دیا ہے۔

چلیں! اکثریت کی رائے کے احترام میں مماثلت ہٰذا کو درست تسلیم کر لیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شخصیات کے کردار میں ”یکڑیانہ چال چلن‘‘ کیوں عود آتا ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب معلوم نہیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل ایسا بین الاقوامی شہرت کا حامل کوئی بیدار مغز ماہرِ نفسیات ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کونسے حالات ہیں، جن کی بنا پر ایک انسان ابنارمل اور ہلاکو خان بن جاتا ہے اور اپنے زیرِ اثر گھر، گائوں، شہر، ملک یا دنیا کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر کے رکھ دیتا ہے۔ یکڑی اور ٹرمپ جیسے لوگوں کے رویوں کی تہہ میں چھپے عوامل کی نشاندہی ڈاکٹر صاحب پر چھوڑتے ہیں۔ البتہ ہم اپنے محدود تجربے کی روشنی میں ان حالات و واقعات کی طرف ضرور اشارہ کر سکتے ہیں، جن کی بدولت کوئی قوم اپنی مثبت شناخت کھو بیٹھتی ہے۔ ہم نے پہلے بھی کبھی عرض کیا تھاکہ جن ملکوں میں آبادی‘ ریاستی منصوبہ بندی کے تحت بڑھتی ہے، ہر کسی کے لیے علم و تحقیق کے دَر وَا ہیں، سوچ اور اظہار کی آزادی ہے، انصاف، بنیادی حقوق، روزگار اور تفریح کے مواقع یکساں طور پر ارزاں ہیں، خوشحالی ہے اور عوامی حاکمیت کاجادو سر چڑھ کر بولتا ہے، وہاں باہمی احترام، تنظیم اور قانون کی پابندی ایسی عادات لوگوں کی سرشت میں سما جاتی ہیں۔ ایسے معاشروں میں جہالت اور انتہا پسندی کوئی مقام حاصل کر سکتی ہے نہ لاقانونیت اور قتال و جدال پنپ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جن ممالک میں آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھتی ہے، سوچ اور علم و آگہی کے دریچے مقفل ہیں، تنگ نظری اور گھٹن کا ماحول ہے، صحت و تعلیم کی سہولتیں عنقا ہیں، انصاف، بنیادی حقوق، روزگار اور تفریح کے مواقع خواب ہیں، وہاں فرد کو دوسروں تو کیا، خود اپنی زندگی کی بھی کم ہی پروا ہوتی ہے۔ ایسے بیمار ماحول میں لوگوں کی لسانی، گروہی، سیاسی اور مذہبی وابستگی میں ہیجان اور اشتعال کے انگارے بھر کر شدت پسندی، لاقانونیت اور قتل و غارت کو فروغ دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔

قبلہ ضیاء الحق نے جب اپنے اقتدارِ بے توقیر کو دوام بخشنے کی خاطر وطن عزیز میں فرقہ واریت، لسانی اور گروہی اختلافات کی ” ترویج و ترقی‘‘ کا بیڑا اٹھایا، نیز روس، افغانستان جنگ میں کود کر (جو دراصل دو سپر طاقتوں کے درمیان مفادات کی جنگ تھی) ملک میں ناجائز اسلحہ اور منشیات جیسی خرافات کی فراوانی شروع کی تو دور اندیش اصحابِ درد چیخ اٹھے کہ یہ کلچر ہماری آئندہ نسلوں کے لیے تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اہلِ فکر کی زبانیں اور قلم تھک گئے مگر اس مردِ حق کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور آج ہم انہی پالیسیوں کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔

مفکرینِ سیاسیات کہتے ہیں کہ آمریت کا حصارِ ستم جہاں آئین اور قانون کا دامن دھجیاں کرتا ہے، وہاں تعمیری اور جمہوری رویوں کی شمعیں گل کرنے اور نراجیت کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اظہارِ رائے اور دیگر شخصی آزادیوں پر غیر قانونی اور غیر فطری بندشوں اور غیر نمائندہ طاقتوں کی آبیاری کے نتیجے میں معاشرے کی ذہنی کیفیات منفی طور پر ڈھلنا شروع ہو جاتی ہیں، جس سے سوسائٹی کا توازن درہم برہم ہو جاتا ہے اور لوگوں کے رگ و پے میں اشتعال پھیل جاتا ہے۔ آج ہمیں آمریت کے انہی ہلاکت آفریں اثرات و نتائج کا سامنا ہے۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف کی شخصی مطلق العنانیت کی جڑیں ہماری سیاست، معاشرت، تہذیب اور ثقافت میں یوں پیوست ہوئی ہیں کہ ہم اپنی مثبت انسانی شناخت کھو رہے ہیں۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت ایسے منفی رویوں کے طفیل انتشار اور لاقانونیت کا سلسلہ اس نہج پر ہے کہ گلوبل ویلیج کے نزدیک پاکستانی معاشرہ فکر و دانش کی قلت کا ہی نہیں، مثبت ثقافتی اور سماجی اقدار کے شدید بحران کا شکار بھی ہے۔ ہمیں دشتِ رائیگاں کی ایسی بے فیض منزل کا جبراً مسافر بنا دیا گیا ہے، جس کے بارے میں شاعر نے کہا:

سارا شہر بلکتا ہے، پھر بھی کیسا سکتہ ہے

اِک سفر وہ ہے جس میں، پائوں نہیں دل تھکتا ہے

آمرِ سوم نے بے حکمتی کا جو خطرناک آلائو روشن کیا، اس میں جل کر ہم انتہائوں کے باسی ہو چکے اور ہمارا شمار زوال آمادہ، منتشر، بے منزل اور بے راہ قوموں میں ہونے لگا ہے۔ دلیل اور منطق کی بجائے دشنہ و خنجر کی زبانیں، فساد انگیزی، غداری گری اور ایک دوسرے کی نیتوں اور ایمان کو شک کی نظروں سے دیکھنے کی فکرِ بیمار ہمیں آکاس بیل کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور ” یکڑیانہ رویے‘‘ ہماری ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا ساماں کیے جا رہے ہیں۔

برادرم سبط حسن گیلانی نے گزشتہ کالم پر تبصرہ کیا ہے کہ آپ کے بابا یکڑی نے تو جائے وقوعہ کی ریت پر اپنی ڈانگ سے دائرہ کھینچ کر سوئی تلاش کی تھی، مگر ہم لوگ چھلنی لے کر سارے صحرا سے متھا لگائے بیٹھے ہیں… اس سے ایک تو یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ سارے جہاں کا گریباں ہماری نظر میں ہے مگر اپنے چاک گریباں کی خبر نہیں اور دوسری یہ ستم ظریفی کہ آج ہم لق و دق صحرا میں چھلنی سے ریت چھانتے وہ سوئی تلاش کر رہے ہیں جو حقیقت میں ہماری سوئی ہے ہی نہیں۔ دنیا اسے نان ایشوز کی سیاست کے نام سے یاد کرتی ہے، جو ڈیڑھ صدی قبل کی فکرِ یکڑی کے زیادہ قریب ہے۔ ہماری گمشدہ متاع علم و ہنر، غور و فکر، تدبر، رواداری، برداشت، باہمی احترام، وسیع النظری اور وسیع القلبی ہیں۔ ہماری نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے غرق ہو رہی ہے۔ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور آبادی کا عفریت ہمارے محدود وسائل کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہو رہا ہے۔ عدل و انصاف اور بنیادی حقوق کی برکھا ہم سے کوسوں دور ہے۔ نیم خواندگی اور جہالت ہماری جڑوں میں بیٹھ گئی ہیں۔ گیس، بجلی، صحت و تعلیم اور صاف پانی جیسی بنیادی ضرورتوں کے بحران اور مہنگائی نے ہماری زندگیاں اجیرن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان نامساعد حالات میں نفرت، فکری الجھائو، جذباتی ہیجان اور انتہا پسندی ایسے زہر قاتل رویوں کے خاتمے اور علم و عمل اور رواداری کے فروغ کے لیے ہر طبقے کے اہلِ فکر اور زعمائے ملت کو سنجیدہ مساعی کرنا ہوں گی تاکہ ہم اپنے اصل مسائل کی طرف توجہ دے سکیں۔

ایک وضاحت: 6اکتوبر2017ء کے قومی اخبارات میں محکمہ اینٹی کرپشن ، لاہور ریجن کے حوالے سے خبر شائع ہوئی کہ محکمہ ہذا نے ایک ایسے گروہ کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جو CSSکے حل شدہ پیپر چوری کر کے ان میں دونمبری کا مرتکب ہو رہا تھا۔ راقم نے اس خبر کی بنیادپرروزنامہ دنیامیں ” مقابلے کے امتحان کے پرچے ‘‘ کے عنوان سے طنزومزاح کی صنف میںتین کالم لکھے ۔ فیڈرل پبلک سروس کمشن کی طرف سے ایک مراسلے میں ان کالموں پراعتراض کیا گیا ‘اور ایسے تمام الزامات کو مستردکرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ یہ قومی ادارہ CSSکے امتحان کے ہر مرحلے میں فول پروف انتظامات کرتا ہے۔ یقیناایساہی ہوتاہے،تاہم گزارش یہ ہے کہ ان کالموں میں تمام سوال و جواب فرضی تھے ۔ کسی ادارے کی تضحیک مقصود نہ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).