کتنی بے شرم اور بےحیا تھی وہ!


ویسے تو یہ سماج مردانگی کے غرور سے اٹا پڑا ہے مگر جگہ جگہ مردانہ کمزوری کے اشتہار کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہے۔ یہ مردانہ کمزوری ہوتی کیوں ہے۔ یہ طب کا موضوع ہے اور میں اس بارے زیادہ نہیں جانتا اس لئے اس موضوع کو سماجی نقطہ نظر سے ہی لکھوں گا

ہم چار دوست ہیں، جن میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ ہم سب یونیورسٹی میں حیاتیات کے طالبعلم ہے اس لئے اپس میں حیاتیات کے موضوعات پر بات کرنے لئے نسبتاً آزاد ماحول ہے، ہم میں سے اک دوست لڑکی شادی شدہ ہے باقی ہم سارے کنوارے ہیں۔

جب ہماری شادی شدہ دوست کی شادی ہوئی تو شادی کے کچھ عرصہ بعد وہ ہمیں ملنے ائی، ہم سب اکٹھے بیٹھے تھے۔
بات شادی کے تجربے کے بارے میں چل پڑی، ہم نے اس دوست سے پوچھا بتاؤ شادی کیسا تجربہ ہے۔

ہماری وہ دوست اس بات کو ٹال دینا چاہتی تھی مگر ہمارے گہرے اصرار پر اس نے چھوڑو یارو اس میں کچھ ایسا نہیں، جو بتانے کے لئے خاص ہوں۔ اس نے ہم میں سے اک دوست (پرویز) فرضی نام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،

پرویز۔ !
اور تو کچھ نہیں کہوں گی مگر اتنا ضرور کہوں گی جب تمہاری شادی ہو تو جنسی طاقت بڑھانے لئے حکیموں کی دوائی استعمال مت کرنا

ہم سب اک دم خاموش ہو گئے کیوں کے یہ اس کی طرف سے غیر متوقع بات تھی، ہم تھوڑے سے جاہلانہ مسکرائے اور خاموش ہو گئے۔ اس نے بات جاری رکھی اور کہا مذاق نہیں کر رہی، ہاں۔ !

اس نے کہا دیکھوں پرویز۔  اس معاشرے کی جہالت دیکھوں اس نے آج تک اس جنسی مباشرت کو محض اک مرد کے نقطہ نظر سے ہی دیکھا ہے۔ اور ساتھ والی عورت کو محض اک سیکس ڈول یا روبوٹ سمجھا ہے۔ دیکھو۔

مرد جنسی دوائی کا استعمال کرتے ہوئے عورت سے برابر کی جنسی آسودگی کی توقع کرتا ہے، مگر سچ بولوں تو ہم عورتیں اس کو محض اک مجبوری کے طور پر لیتی ہے حالانکہ اس عمل میں تو دونوں طرف سے برابر آمادگی ہی اس قدرتی عمل کی زینت اور حسن ہوتے ہیں۔

دیکھو نا! میرے شوہر اچھی نوکری نہیں کرتے معاشی طور پر حالات تنگ دست ہی رہتے ہے، مجھے ہمہ وقت گھر کے بجٹ کو مینیج کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے، گھر میں ساس کے ساتھ جھگڑا چلتا ہی رہتا ہے۔ ہم مڈل کلاس خاندانوں میں جائنٹ فیملی ہونے کی وجہ سے یہ ہر گھر کی کہانی ہے، لیکن یہ چیز مجھے ذہنی طور پر پریشان کیے رکھتی ہے میرے شوہر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہے مگر کوئی بات نہیں بن پاتی۔

میں بھی اک چھوٹی سی نوکری کرتی ہوں، دوپہر کو گھر آتی ہوں اور آ کر شام تک گھر کے کام نبٹاتی رہتی ہوں، رات تک تھک ہار کر تھکن سے چور ہو گئی ہوتی ہوں۔ شوہر سے متعدد دفعہ کہا ہے کہ کوئی نوکرانی رکھ دے، مگر وہ کبھی یہ کہہ کر کہ بجٹ میں گنجائش نہیں اور کبھی یہ کہہ کر کہ اتنا تو کام نہیں ہوتا تم ابھی سے اتنا تھک جاتی ہوں بڑھاپے میں سوچا کیا ہو گا، ٹال دیتے ہے۔

میری میرے شوہر ساتھ خاص ہم آہنگی intimacy بھی نہیں، ہم یہاں تک کہ اچھے دوست بھی نہیں اچھے ہمراز بھی نہیں اچھے ہمدرد بھی نہیں۔ میرے شوہر اس سب کے باوجود رات کو مجھ سے برابر کی آمادگی کی توقع کرتے رہتے ہیں۔

مگر ان سب حالات کے ساتھ اک عورت کی طرف سے آمادگی ناممکن ہے، اس لئے میں اس چیز کو محض اک مجبوری کے طور پر بھگت رہی ہوں، لوگ اس کو تحفہ کہتے ہے مگر میرے لئے یہ وبال جان ہے۔

میں اس چیز میں اپنے شوہر کا برابر کا ساتھ دے سکتی ہوں، مگر اگر وہ ہمارے معاشی حالات بہتر کرنے کی کوسش کرے، میرے اور اپنی ماں کے درمیان معملات کو احسن طریقے سے نبٹائے، میرے کام کے بوجھ کو ہلکا کرے  اور میرے ساتھ اپنی قربت بڑھائے۔ مجھے برابر کی زندگی کی ساتھی سمجھے، مجھ سے مشورہ کرے۔  پھر اسے کسی دوائی کی ضرورت نہیں رہی گی، نا ہی حکیموں کے ہاتھوں جانور بننے کی۔ مگر وہ یہ بات کیسے سمجھے۔

ہم سب خاموش بیٹھے اس کی طرف دیکھ رہے تھے، پتا نہیں آج وہ اتنی بے حیا باتیں کیوں کر رہی تھی، مگر جو بھی تھا اک ایسا سماجی رونا رو رہی تھی جو ہمیشہ اس کے اندر ہی رہتا ہے، شاید وہ اپنی سہیلیوں ساتھ ذکر کرتی ہوں مگر ان احساسات کا ہم مردوں تک پہنچنا اچھا ثابت ہو سکتا تھا، ہم شاید مستقبل میں اس بارے سوچ بھی سکتے تھے۔

مگر حکیم اپنا کاروبار کیسے چلائیں گے؟
ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا
اور دوسرا
شادی کے پہلے سال باپ مت بننا

اب ہم نے اس سے اس بات کی بھی وضاحت چاہی
اس نے کہا دیکھوں پرویز۔ جب میں اپنے شوہر کا عجیب رویہ اس کے سماجی اور گھریلو حالات دیکھے تو میں سوچا کہ اس سارے عذاب کو زندگی بھر جھیلنے سے بہتر ہے میں اس سے طلاق لے لوں۔ مگر میں ایسا کیسے کرسکتی تھی۔ کیوں کہ میں تب تک چھ ماہ کی حاملہ تھی۔ میرے ذہن میں اس دنیا کے اندر انے والے بچے کا سیاہ مستقبل آ جاتا تھا۔ ماں ہوں نا، قربانی فطرت میں ہے، سوچتی تھی کہ اس لئے سب جھیل لو گی۔ دوسرا شاید حمل اور پھر بچے کی پیدائش کے ساتھ ۔

پھر اس کی نگہداشت کی مصروفیت نے میرے شوہر کے ساتھ میری انڈرسٹینڈنگ ہونے ہی نہیں دی۔ شاید ہمیں اگر اک ساتھ اک سال کا وقت مل جاتا تو ہم بڑی حد تک اک دوسرے کو سمجھ جاتے، اس لئے میں سوچتی ہوں کہ ہمیں اک سال انتظار کر لینا چاہیے تھا، مگر میرے شوہر کو نامردمی کے طعنوں سے ڈر لگتا تھا، اس لئے میں انھیں ڈرتے ڈرتے کہہ بھی نہیں پائی۔

اس کی باتوں میں منطق ضرور تھی، اور اب واقعی ہمیں محسوس ہوا کہ ہم جس دوست ساتھ بیٹھے ہے وہ زندگی کے بارے بڑی پختہ اپروچ کی مالک بن چکی تھی۔ جو بھی ہو اس کی یہ دونوں بے حیا باتیں مجھے آج بھی یاد ہے۔ اور میں کبھی کبھی اکیلے میں سوچتا اور ہنس دیتا ہوں، یار کتنی بے شرم اور بےحیا تھی وہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).