تخلیقی عمل کا فروغ : خدشات و امکانات


\"zahidکسی بھی ریاست میں آگے بڑھنے، ترقی کی رفتار اور انسانی برادری میں باعزت مقام کے حصول کی پیمائش اس میں بسنے والے افراد کے معاصر رجحانات کے ذریعے باآسانی کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی کہ اس ریاست کے افراد مجموعی ترقی کے سفر میں اپنے آپ کو کہاں رکھتے ہیں۔ کیا وہ اس سفر میں دوسروں کے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہیں یا پھر کنارے پر بیٹھے ایک تماشائی کے طور پر۔ شریک سفر لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر بے جا کڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی غلطیوں کے باعث انہیں جینے تک کا حق نہیں دینا چاہتے اور ان کی کامیابیوں پر بے جا تفاخر میں مبتلا رہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پاکستانی قوم کی ٹی ٹونٹی میں پاکستان کی لڑکوں کے کرکٹ میچ کے ہارنے کے بعد نظر آتی ہے۔ اسی روز پاکستانی لڑکیوں کی ٹیم بھارت سے میچ جیت جاتی ہے۔ اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ افسوس کہ بھارت میں بھی لڑکیوں کی ہار پر کوئی دل دکھا محسوس نہیں ہوا۔ ایک پاکستانی کے طور پر میرے لیے آفریدی الیون کی ہار روزمرہ کا حصہ ہے جبکہ ثنا میر الیون کا جیتنا میرے لیے اپنے اندر بہت سے معانی رکھتا ہے۔ آنے والے دنوں میں، میں جن سے بہت زیادہ طاقت حاصل کرنے والا ہوں۔ میں تمام پاکستانی قوم سے ثنا میر الیون کی جیت شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ تمام پاکستانیوں کو اپنی بیٹیوں کی جیت مبارک ہو….!
ایک ایسی معاشرت میں جہاں عورتوں کے تحفظ، ان کی عزت و ناموس اور ترقی کے راستے میں روڑے اٹکانے کو قابل فخر سمجھا جا رہا ہو۔ میں عورت کی آزادی اور اس کو برابری کا حق دینے کے لیے اپنی آواز بلند رکھنے کے عزم کا اظہار کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ پاکستان کے دوسرے مردوں کو بھی قدرت توفیق دے کہ وہ میرے ساتھ ہم آواز ہوں اور اس یقین کے ساتھ اس آواز کو مرنے اور مٹنے نہیں دوں گا کہ جب زندگی کے جملہ عوامل میں عورت مرد کی شریک سفر نہیں ہو جاتی ۔ہم ایک ایسے تخلیقی عمل کی بلندی پر نہیں پہنچ پائیں گے جس پر پہنچے بغیر انسانی برادری میں ایک باوقار قوم کا رتبہ حاصل کر پائیں ۔یہ ممکن ہی نہیں کہ جب تک ہم عورتوں کو اپنے قدم سے قدم اور شانے سے شانہ ملا کر چلنے کو اپنی عادت نہیں بنا لیتے۔
پاکستان اس وقت یقینا ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑا ہے جس میں اگر آپ ایک راہ کا انتخاب کریں گے تو مستقبل کی روشن صبحوں کی جھلک آپ کے چہرے کو ضوبار کر دے گی اور اگر دوسری راہ کا انتخاب کر لیں گے تو اندھیرے اور تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پڑیں گے۔ اس وقت جو تخلیقی مکالمے کی فضا معدوم ہو چکی ہے اس کے جاری ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ تعلیمی زبوں حالی، ترقی کے سانچے میں ڈھل جائے گی۔ بے مقصد اور روز افزوں بڑھتی آبادی کے عفریت کے بارے میں جب سب مائیں اور باپ سوچیں گے تو اس کے لیے اقدامات کریں گے۔ بیروزگار، بیمار اور لاچار پانچ بچوں کی بہ نسبت ایک ایسے بچے کی پیدائش پر غور کریں گے جو سوسائٹی کا ایک ذمہ دار فرد ہو اور اس میں مثبت تبدیلی لانے کا عزم رکھتا ہو۔ جس میں بیوی محض شریک حیات نہیں، شریک راز و نیاز بھی ہو۔ جو اپنے گھر میں مثبت تبدیلی لانے کی رائے ہی نہیں عزم و ارادہ بھی رکھتی ہو اور اسے اس پر عمل کرنے کا پورا اختیار ہو۔ پاکستانی ریاست میں لڑکی مجبور محض نہ ہو، سکول کالج اور دفتر میں جانے کے لیے اپنے بھائی اور والد کے ساتھ کی جسے ضرورت نہ ہو بلکہ اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتی ہو۔ سائیکل، موٹر سائیکل چلاتے دیکھ کر جسے حیران نظریں دیر تک اور دور تک پیچھا نہ کرتی رہیں۔ ایک روشن اور عظیم پاکستان کے لیے عورت کا یہ کردار ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کے لیے مگر عورتوں کو اور لڑکیوں کو پہلا قدم اٹھانا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments