اب لحاف بھی نہیں ہلتا


مشرف نے دبئی پھسل جانے کا جو کرتب کیا ہے وہ چماٹ کی طرح لگا ہے۔ جس آئین کے ہم گن گاتے ہیں ، جس پر اتفاق رائے ہونے کا فخر کرتے ہیں۔ اس کی اگربتی بنا کر سلگانے کو دے دی ہے ظالم نے۔ دل ان تین چار زبانوں میں مشرف کے قصیدے پڑھ رہا ہے جو ہمیں آتی ہیں، لیکن صبر نام کو نہیں آ رہا۔

آئین قانون کے گیت ہم گا سکتے ہیں لیکن قانون پر سب کے لیے ایک سا عمل ہو، یہ خواب بھی اب دھواں سا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی طور پر ایک اچھا فیصلہ ہو گا ہماری سرکار بچ جائے گی، نظام چلتا رہے گا۔ البتہ اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی سب کے سامنے نکل گئی ہے۔

کپتان ایک امید ایک تبدیلی کا نعرہ لے کر اٹھا تھا۔ اس کے نعروں کو ڈی چوک میں بھنگڑے کرتے دھرنے کو برات میں بدلتے سب نے دیکھا۔ وہ نعرے ہوا ہوئے، کپتان اپنا ریڑھا لیکر آیا تھا۔ اب صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس ریڑھے کو دھکا دینے والوں کو بس اتنا ہی مطلوب تھا، کہ ان کا سابق چیف بھلے بزت ہوتا رہے، لیکن بس اندر نہ ہو، کسی طرح باہر چلا جائے۔

ہماری مذہبی جماعتیں اسلام کے نعرے لگاتی ہیں ان کا ہر عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس ملک میں مذہبی نظام تو خیر کیا آئے، کوئی مذہب کا نام لیوا بھی باقی نہ بچے۔ مذہبی جماعتوں کی سیاست ایسی زوال پذیر ہے، اتنی مردہ ہو چکی ہے کہ اس میں جان ڈالنے کو اب ممتاز قادری کی لاش کا ہی آسرا باقی ہے۔

کسی بھی فرقے کا عالم دین ہو ، اس کے سامنے بس ایک سوال رکھا جائے کہ مقتول کے ورثا اگر دیت لینے پر راضی نہ ہوں تو قاتل کی گردن مارنے کے علاوہ کیا راستہ ہے۔ یہ جواب مطلوب ہے ہر عالم سے جس کا جواب ہم سننا چاہیں گے۔ علما کا اعتبار اس گئے گزرے زمانے میں اب بھی اتنا باقی بچا ہی ہو گا، کہ ان سے حق بات کہنے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔

دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن نوازشریف کے ہر سیاسی حکومتی فیصلے کا مرکز ہے۔ انہیں اپنے اقتدار کی باقی مدت ہر صورت میں پرسکون رہ کر پوری کرنی ہے۔ اپنے دکھائی دینے والے منصوبوں کو مکمل کرنا ہے تاکہ اگلے الیکشن میں ووٹ مانگ سکیں۔ مشرف کو بھگا دینا انہیں وارا کھاتا تھا۔ یہ مختصر مدت کا ان کا ذاتی فائدہ ہماری ریاست میں قانون پر عملدرآمد کے بارے میں ایک مستقل سوال بن کر چمٹا رہے گا، کب تک شاید تب تک جب تک یہ ملک رہے گا ۔ پاکستان تو رہے گا یہ سوال بھی موجود رہے گا۔

پاکستان کی باقی سیاسی جماعتیں مشرف کو دوڑانے میں برابر کی شریک ہیں۔ سیاست کا تقاضا مگر یہ ہے کہ جھوٹ کا سہارا لیا جائے اصول پسندی کا ایک جعلی عکس ڈالا جائے اپنے حصے کے احمقوں کو مزید بیوقوف بنایا جائے۔ یہ سیاست ہے، ہمارے ہاں یہ ایسی ہی ہوتی ہے، ایسی ہی رہے گی کسی بڑی تبدیلی کے بغیر۔

بیس تیس روپے ماہانہ تنخواہ پر انگریزوں کے لیے ہمارے خطے کے مسلمان سپاہی حجاز عراق اور عرب علاقوں میں دگڑ دگڑ کرتے پھر رہے تھے۔ پاکستان بنا تو یہ دعوے ان کے کانوں میں بھی پڑ گئے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے۔ ان سپاہیوں نے عربوں کو انگریزوں کے لیے رولتے ہوئے ان مقدس سرزمینوں پر جو روحانی علوم حاصل کیے تھے، انکی برکات سے اپنے نوازائیدہ ملک اور ہم وطنوں کو فیض یاب کرنا پھر ان کا فرض تھا جو انہوں نے ادا کیا۔ پہلی دہائی میں ہی اقتدار سنبھال لیا جس پر قوم ان کی شکر گزار ہے۔

کوئی کسر اگر باقی تھی تو قیام پاکستان کی مخالف مذہبی جماعتوں نے پاکستانیوں کو مذہب سکھانے اور اسلامی ریاست بنانے کو گود لے لیا۔ اس کا درد قوم کو الگ سے سوا ہوتا ہے لیکن مولوی ہیں کہ بے درد و بے دید ہوئے پھر رہے ہیں۔

بات بہت ہی سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے چلیں بات بدلتے ہیں۔ عصمت چغتائی کا لحاف پڑھ کر کئی نسلیں ایک دم سے جوان ہوتی رہی ہیں۔ کہانی ختم ہو جاتی ہے جب کہنی کار کی طرف سے ہلتے لحاف کی تہہ مین اٹھتے طوفان کو بیان کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس کہانی کو چھوڑیں ہماری کہانی سنیں۔ ایک ہوتا تھا تازہ خان اس کا عشق انوکھا تھا جیسا کہ تازہ خانوں پر الزام دھر دیا جاتا ہے، غیر نصابی عشق اور پگڈنڈی کا معشوق۔ تو ہمارا تازہ خان بھی ایک نوجوان کو اپنے عشق کے لیے مشق ستم بنانا چاہتا تھا۔

نوجوان کو اپنے لحاف میں آنے کی بار بار دعوت دیتا تھا۔ تنگ آ کر نوجوان نے کہا کہ تازہ خان میں نے نہیں آنا۔ پھر کبھی سہی کہ میں آیا تو لحاف ہلے گا ہم پکڑے جائیں گے۔ ہم پکڑے گئے تو بزتی ہو گی مار الگ پڑے گی۔ تازہ خان بولا کہ مڑا ہمارا کمال ہی یہ ہے کہ ہم لحاف کو ہلنے بھی نہیں دیتا۔ عرض یہ ہے کہ وطن عزیز  پر حکومت کرنے والوں نے ستر سال بعد آخر کار تازہ خان والی مہارت حاصل کر لی ہے۔ وہ لحاف کو اب ہلنے بھی نہیں دیتے۔ اور اس مہارت پر پوری پوری داد کے مستحق ہیں۔

گالیاں سرکار کو پڑ رہی ہیں، ہم سیاستدانوں مذہبی راہنماؤں کو میڈیا کو کوس رہے ہیں۔ آپ ہم کوئی بھی تازہ خان کی مہارت کی داد ہی نہیں دے رہا۔ اردو والے عاشق نے کہا تھا “جب دھم سے آ کہوں گا، صاحب سلام میرا”۔۔۔

دل خوش کرنے کو ہم کہہ سکتے ہیں مشرف کا طبلہ خوب بجایا ہے سیاستدانوں اور میڈیا نے لیکن تسلی نہیں ہوئ۔ سیاستدان آج ناکام ہو گئے ہیں ایک وقت آئے گا کہ وطن میں قانون کا بول بالا ہوگا یہ سب کے لیے برابر بھی ہو گا۔ تب تک سیاستدانوں کو بھی ہمیں خود بھی اپنے آپ کو تعلیم دینی ہے اپنی تربیت کرنی ہے۔

تب ہلے لحاف ہلے یا اس سے چنگاریان اٹھیں، رونا احتجاج کرنا سب بیکار ہے۔ بلکہ سیاستدان خود بھی کوشش کریں کہ کسی کو لحاف ہلنے کا پتہ نہ چلے کہ عزت سب کی سانجھی ہوتی ہے۔

Mar 21, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments