امریکہ، اسرائیل اور عرب


ٹرمپ کے امریکی سفارتخانے کو مقبوضہ یروشلم منتقل کرنے کے اعلان سے عالم اسلام میں بالخصوص اور عالمی برادری میں بالعموم ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی دنیا اُن نتائج کے حوالے سے ایک تشویش کا شکار ہو گئی ہے کہ جو اس اقدام کے سبب سے وقوع پذیر ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا اگر ہم جائزہ لیں تو یہ معاملہ بالکل واضح ہو گا کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں ہر وہ حربہ اختیار کر رہے تھے کہ جس کے سبب سے ایک جذباتیت کی کیفیت قائم ہو جائے۔ اس حوالے سے ان کی وہ تقریر بہت معروف ہو ئی اور زیر بحث بھی رہی کہ جو انہوں نے امریکی اسرائیلی لابی کے سامنے کی تھی کہ جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں گے خیال رہے کہ یہ لابی امریکی بزنس لابی کے بعد امریکہ میں سب سے زیادہ با اثر تصور کی جاتی ہے۔

اس تقریر سے یہ نتیجہ باآسانی اخذکیا جا سکتا تھا کہ ٹرمپ اگر صدر منتخب ہو گئے تو وہ یہ اقدام کر گزریں گے اور وہ کر گزرے مگر اس سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ سوال ہے کہ امریکہ اس اقدام تک کیوں پہنچا اور وہ مشرق وسطی یعنی عرب ممالک کے حوالے سے کیا خارجہ پالیسی رکھتاہے اور اس خارجہ پالیسی میں اسرائیل کی کیا اہمیت ہے یہ نظریہ درست نہیں ہے کہ اسرائیل کی مرضی سے امریکہ اپنی حکمت عملی کو مرتب کرتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو عربوں کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے واسطے ایک مضبوط مہرے کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اس وقت عرب ممالک کے حوالے سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب، مصر اور اسرائیل بنیادی اہمیت کے ممالک کے طور پر سامنے موجود ہیں۔

امریکہ ایک طویل عرصے سے مشرق وسطی میں تنہا بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد جب نوآبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا تو اس وقت کی سپر پاوروں برطانیہ اور فرانس نے اپنی حیثیت کو بحال رکھنے کی خاطر ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے ان کا مقابلہ اس وقت امریکہ سے عالمی لیڈر کے مقام کے حوالے سے تھا۔ 1956میں اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی سے مصر سے جنگ چھیڑ ی۔ یہی وقت امریکہ کی عالم عرب میں اپنی برتری قائم کرنے کے لیے اہم ثابت ہوا امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا بلکہ اس نے اسرائیل کو واپس پلٹانے میں اپنا کردار ادا کیا اس اقدام سے امریکہ کو دوفائدے حاصل ہوئے، اول عربوں میں یہ تصور راسخ ہونے لگا کہ اگر امریکہ چاہے تو اسرائیل کو جس مرضی کی حمایت حاصل ہو مگر پھر بھی اسرائیل کے قدموں کو امریکہ واپس موڑ سکتا ہے اور اسرائیل میں یہ تصور جم گیا کہ اب اپنی سلامتی کو برقرار رکھنے کی خاطر تکیہ صرف امریکہ پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ باقی دنیا امریکہ کے بغیر بیکار ہے۔

اسی دوران سوویت روس اپنا اثرونفوذ عرب ممالک تک بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا اسرائیل کو سوویت روس سے دور رکھنے کی غرض سے اس کی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے پر امریکہ نے توجہ دینی شروع کر دی تاکہ وہ سوویت روس کی گود میں گرنے سے رکا رہے اور عربوں کو بھی سرخ خطرے سے دور رکھنے کی غرض سے یہی حربہ کارگر ثابت ہوا کہ مضبوط اسرائیل عربوں کو امریکہ کے سامنے مجبور رکھے گا۔ 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں رہی سہی کسر بھی نکال دی اسرائیل کا خطرہ عرب دنیا کے لیے سر چڑھ کر بولنے لگا اور امریکہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ اس خطرے کے مقابلے کے لیے عربوں کے پاس موجود نہیں تھی اسی حکمت عملی کے ذریعے امریکہ مشرق وسطی میں سوویت اثرات کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب ہو گیا امریکہ نے یہی حکمت عملی سرد جنگ کے بعد بھی جاری رکھی اب سوویت خطرہ تو موجود نہیں تھا لیکن یہ خطرہ ضرور موجود تھا کہ کہیں عالم عرب میں یہ احساس نہ پیدا ہو جائے اب کیونکہ کیمونزم کا خطرہ ٹل چکا ہے تو ہمیں بھی اپنی حکمت عملیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اسی لیے اسرائیل کا ہوّا اسی طرح کھڑا رکھا گیا تاکہ خوف سے آزاد ہونے کی کیفیت غالب نہ آجائے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ہی گزشتہ صدی کے آخری عشرے کے اوائل میں اسرائیل اور PLO کے مابین ایک معاہدے کا اہتمام بھی کروایا گیا تاکہ اسرائیل کو اس نوعیت کی مزاحمت سے نسبتاً نجات مل سکے۔ اور وہ زیادہ تگڑا ہو کر آنکھیں دکھا سکے۔ اسی دوران نئی حقیقتیں عالمی منظر نامے پر اُبھر کر سامنے آنے لگیں روس دوبارہ ہاتھ پاؤں مارنے لگا چین ترقی کے ایک نئے سفر کی جانب گامزن ہونے لگا، یورپ متحدہ کرنسی کے ساتھ ساتھ مزید اتحاد کی جانب بڑھنے لگا امریکہ نے ان تمام حالات میں افغانستان اور عراق میں مختلف وجوہات کی بناء پر جب کہ لیبیا اور شام نے عرب بہار کی آڑ میں عسکری طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا اس سے کیا نتائج ہوئے تو ہم پاکستانیوں کے سمجھنے کے لیے آسان سا جواب افغانستان ہے بہرحال شام میں یہ صورت حال ہوئی کہ روس پوری آب وتاب کے ساتھ میدان میں اُتر آیا اور اپنے حامی بشار الاسد کو بچانے میں کامیاب ہو گئے یعنی عرب میں اب نئے روس کا خطرہ امریکہ کے سر پر منڈلانے لگا کہیں عرب اس خطرسے نبردآزما ہونے کی غرض سے روس سے براہ راست گفتگو نہ کرنے لگ جائے اور عربوں پر تنہا بالا دست قوت ہونے کا امریکی مقام دھڑا م سے نہ گر جائے اس لیے عربوں کو اسرائیلی خطرے سے مزید ڈرانا اب امریکہ کی ضرورت بن چکی ہے۔ اور امریکہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے تل ابیب سے یروشلم اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کی جانب گامزن ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ یہ فیصلہ کوئی ٹرمپ کی ذہنی اخترا ع نہیں ہے بلکہ امریکہ نے 1995 میں یروشلم ایمبسی ایکٹ منظور کیا تھا کہ جس میں امریکہ نے اپنا سفارتخانہ 1999تک یروشلم منتقل کروایا۔ کلنٹن کے دور کے اس قانون پر عمل کرنے کا عزم بعد میں جارج بش اور اوباما نہ بھی اپنے عرصہ صدارت کے دوران کیا اس لیے ٹرمپ نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جو امریکہ میں حقیقتا ًصرف ٹرمپ کے اقدام کے طور پر دیکھا جائے۔ گزشتہ جون میں امریکی سینٹ نے یروشلم کے اتحاد کے 50سال مکمل ہونے پر اسرائیل کو مبارکباد دی اور امریکی حکومت پر یروشلم ایمبسی ایکٹ 1995 پر عملدرآمد پر زور دیا دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قرار داد کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کیا اور ایک رکن نے بھی مخالفت نہیں کی بدقسمتی یہ ہے کہ عالم عرب میں بے یقینی کی فضاء قائم ہے اسرائیل اپنے آپ کو مشرق وسطی کی واحد جمہوریت کے طور پر پیش کر کے اور ان کے اس طعنے کا جواب بدقسمتی سے عالم عرب کے پاس موجود نہیں ہے۔ عالم عرب کے پاس تو صرف داخلی لڑائی یا عرب وعجم کے فساد میں الجھے رہنے کے منصوبے ہیں۔ صورت حال یہی رہے گی تو اسرائیل کا مہرہ امریکہ مزید استعمال کرے گا اور عرب مزید خوفزدہ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).