قسم ہے اس سچ کی، جسے سنا نہیں گیا


کل تک خبر تھی کہ اتر پردیش کے ہندو شہریوں نے اخلاق احمد کو اس افواہ پہ سنگسار کردیا کہ اس نے گائے ذبح کی۔آج خبر آتی ہے کہ گجرات کے الیکشن میں اہل پاکستان سے بات کرنے والا مردود قرار پا رہا ہے۔ اب اس حادثے پہ کیا بحث کریں؟ آئیں بنیادی بات کی طرف چلتے ہیں۔

سین یہ ہے۔آپ ہندو ہیں۔ پاکستان میں رہتے ہیں۔ اقلیت میں ہیں۔ سماج تہہ در تہہ مذہب کی بحث میں الجھا ہوا ہے۔ عددی برتری جسے حاصل ہے، اسی کو خدا کے لہجے میں بولنے کا حق ہے۔ اندیشوں اور وسوسوں نے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے۔ خدشات قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ آپ خود کو غیر محفوظ تصور کر نے لگے ہیں۔ آخری امید کے طور پہ بھگوان کو پکار رہے ہیں۔ دعا کر رہے ہیں

”اے بھگوان! کچھ بھی ہو، پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بننے نہ دینا “

سین بدل گیا۔آپ مسلمان ہیں۔ ہندوستان میں رہتے ہیں۔ اقلیت میں ہیں۔ سماج تہہ در تہہ مذہب کی بحث میں الجھا ہوا ہے۔ عددی برتری جسے حاصل ہے، اسی کو خدا کے لہجے میں بولنے کا حق ہے۔ اندیشوں اور وسوسوں نے گھر کا رستہ دیکھ لیا ہے۔ خدشات قدم سے قدم ملائے چلے جا رہے ہیں۔ آپ خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ آخری امید کے طور آپ کی نگاہ سیدھا عرش معلی سے جا لگی ہے۔ دعا کر رہے ہیں

”اے مولا! کچھ بھی ہو، ہندوستان کو کبھی ہندو مذہبی ریاست نہ بننے نہ دیجیو“

سین بدلا۔ آپ ہندو ہیں۔ ھندوستان میں رہتے ہیں۔ آپ اقتدار اس مذہب کو سونپ دینا چاہتے ہیں، جو آپ کی نظر میں فلاح کی تنہا ضمانت ہے۔

سین پھر بدلا۔آپ مسلمان ہیں۔ پاکستان میں رہتے ہیں۔ آپ اقتدار اس مذہب کو سونپ دینا چاہتے ہیں، جو آپ کی نظر میں کامیابی کا حتمی پروانہ ہے۔

ہندو متوجہ ہوں۔ کیوں ڈرتے ہو اسلام سے؟ کیا یہ پرامن مذہب نہیں ہے؟ کیا گاندھی نے اسلام کا فلسفہ امن تسلیم نہیں کیا؟ کیا نہ؟ پھر؟ لاشعور سے جواب آتا ہے!

”اسلام پہ کوئی بحث نہیں، مسلمان سے ڈر لگتا ہے صاحب“

اب مسلمان متوجہ ہوں۔کیوں ڈرتے ہو ہندو مت سے۔ کیا یہ پرامن مذہب نہیں ہے؟ کیا حضرت حسین مدنی نے ہندو مذھب کے فلسفہ امن کو تسلیم نہیں کیا؟ کیانہ؟ تو پھر؟ لاشعور سے جواب آتا ہے۔

”ہندو مذہب پہ بحث نہیں، ہندو سے ڈر لگتا ہے صاحب“

اے خدواندانِ مذاہب و عقائد۔ تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ اس قدر مذہبی تنوع کے ساتھ زمین نامی سیارے پہ زندگی بسر کرنا اب ممکن ہی نہیں ہے۔ عہد قدیم کے کسی عمرانی معاہدے میں نظمِ اجتماعی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔

دل پہ ہاتھ رکھیئے۔ اب بتایئے۔کیا اہل مذہب کی ایسی کسی قطعیت اور حتمی لہجے کے ساتھ زندہ رہا جا سکتا ہے کہ جس میں کابل کی حافظ قرآن فرخندہ صرف اس لیئے سنگسار کر دی جائے کہ اس نے تعویذ جلا دیا تھا۔ کیا عقیدوں اور ایقان پر ایسے اصرار کے ساتھ سانس لینا آسان ہے کہ جس میں اتر پردیش کے اخلاق احمد کو صرف اس افواہ پہ سنگسار کر دیا گیا کہ اس نے گائے ذبح کی تھی؟ کیا کسی ایسے الوہی تصور کے ساتھ جیا جا سکتا ہے کہ جس میں ممتاز قادری کو ہیرو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ اور پھر ادھر دیکھیں، سلمان تاثیر کے سینے میں پورا برسٹ صرف اس لئے اتار دیا گیا کہ ایک قانون پہ اس نے سوال اٹھایا۔ پھر برسٹ چلانے والا ہیرو؟ پھر کیا جج، کیا وکیل، کیا ملا اور کیا صوفی سبھی ہجوم درہجوم اس کا ماتھا چومنے کو پہنچے ؟ سوچتے کیوں نہیں؟ سوچو کہ خدائی کے ایسے تصور کے ساتھ سیاست میں در آنے سے کیا حاصل کہ جس میں انسانیت کے لئے خون کے چند قطروں کے سوا کچھ نہ ہو۔

کیا کیجئے صاحب۔ آو ¿ ایک ایسے معاہدے کی طرف جو اجتماعی تناظر میں خدا پہ نہیں، انسان پہ بحث کرے۔ یہ وہ بات ہے جس کو آپ کا عمل تسلیم کر چکا ہے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ صرف تب اظہار کرتے ہو جب خود پہ بن آتی ہے۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟ اگر غلط ہوں، تو ہندو ہی بتا دے کہ ھندوستان میں اقتدار کا حق اگر کسی پنڈت کو ہے، تو پاکستان میں سیکولر دانش کدوں کی آڑ میں سہمے سہمے کیوں کھڑے ہو؟ مسلمان ہی بتا دے کہ پاکستان میں اقتدار کا ضامن اگر منبر ہے، تو پھر ہندوستان میں سیکولر ازم کے پردوں میں پناہ کیونکر لی ہوئی ہے۔

سنئے۔ جدید ریاست ایک بدیہی حقیقت ہے۔ اس کے ہوتے آپ کے پاس چہرے پہ دوہرا نقاب رکھنے کے سوا چارہ نہیں۔ آپ کے اس دوہرے رویے کو اگر الفاظ دیئے جائیں، تو عبارت کچھ یوں بنتی ہے کہ ”سماج میں صرف مشترک نکات پہ جیا جا سکتا ہے“۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ ایک مشترک چیز کیا ہے جسے نقطہِ ارتکاز تسلیم کیا جا سکے؟ کیا ہے؟ آپ ہی بتا دیں صرف اور صرف انسانیت کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟

کیا کہا، سیکولر ازم لادینیت ہے؟ یہ انکشاف ہے میرے لئے۔ بھائی میرے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مذھب کو تحفظ دے۔ سہولیات مہیا کرے۔ کیسے؟

 ۱۔ تمام شہری مذاہب سے بالاتر ہوکر یکساں حقوق و شناخت کے حامل ہوں گے۔

 ۲۔ سب کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی آزادی میسر ہوگی۔

 ۳۔ سب کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی آزادی میسر ہوگی۔

 ۴۔ تمام مذاہب کا یکساں احترام ہوگا

مگر! ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ کیا کرے گی ریاست؟ یہ اچھا سوال ہے۔ ریاست تمام شہریوں کو یکساں طور پہ بنیادی ضرورتیں اور بنیادی حقوق مہیا کرے گی۔ اب یہی بنیادی ضرورتیں اور حقوق ہی ہیں جو انسانیت کے بیچ اجتماعی بندوبست کی ضمانت ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی سے لے کر روٹی، کپڑا، مکان، صحت ، تعلیم ، امن اور روزگار سب پر سب کا حق ہے۔

خود سوچیں۔ سیکولر ازم اس کے سوا اور کیا ہے؟ سچ وہ نہیں جو ہندوستان کا ہندو سوچتا ہے۔ سچ وہ بھی نہیں جو پاکستان کا مسلمان سوچ رہا ہے۔ سچ وہ ہے جو پاکستان کا ہندو محسوس کرتا ہے۔ سچ وہ ہے جو ہندوستان کا مسلمان محسوس کرتا ہے۔

اب افسوس یہ نہیں کہ بات سنتے نہیں، افسوس یہ ہے کہ ناکا میوں کا خون ریز چہرہ دیکھ کر بھی جمہوریت کو گالی دی جاتی ہے۔

ہائے انسان۔ وائے انسان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).