1974 کی قومی اسمبلی کی کارروائی میں حامد میرصاحب کی تحریف


‎حامد میر صاحب نے 30 نومبر 2017 کو اپنے جنگ کے کالم ’ختم نبوت پر ایک سوشلسٹ کا مؤقف‘ میں لکھا تھا:

‎’’واضح رہے کہ 20 اگست 1974 کو اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے قومی اسمبلی میں مرزا ناصر احمد سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کا اسرائیل میں مشن موجود ہے۔ مرزا ناصر احمد نے جواب میں کہا وہاں ہماری جماعت موجود ہے کیونکہ اسرائیل میں بھی تو مسلمان رہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کو پسند نہیں کرتا، فلسطینی مسلمان اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں لیکن آپ کے نمائندوں کی اسرائیل کے صدر اور وزیراعظم سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے آپ پر اتنی عنایات کیوں؟ مرزا ناصر احمد نے کہا کہ ہمارے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ‘‘

‎اس پر ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے8 دسمبر 2017 کو ’ہم سب‘ پر اپنے کالم ’حامد میر صاحب کا ایک سنسنی خیز انکشاف ‘ میں لکھا کہ 20 اگست 1974 کی کارروائی صفحہ 857 سے 984 تک ہے اور حامد میر صاحب کے لکھے گئے سوالات و جوابات ان صفحات ہر کہیں نہیں موجود۔ ڈاکٹر صاحب نے حامد میر صاحب سے معین صفحہ نمبر کا حوالہ مانگا تھا جہاں سے حامد میر صاحب نے یہ عبارت نقل کی ہے، خاص طور پر امام جماعت احمدیہ مرزا ناصر احمد صاحب کے یہ الفاظ کہ ’ ہمارے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں‘۔

‎اس کے جواب میں حامد میر صاحب نے 11دسمبر 2017 کو اپنے جنگ کے کالم ’ختم نبوت اور بھٹو کا سیکولر ازم‘ میں لکھا:

‎’’یہ کارروائی قومی اسمبلی کے مطبوعہ ریکارڈ کی آٹھویں جلد میں موجود ہے اور احمدیوں کے اسرائیل میں مشن کا ذکر صفحہ 1060 سے 1070 میں ہے تاہم اس ریکارڈ کے مطابق مرزا ناصر احمد نے یہ بتایا کہ اسرائیل میں احمدیوں کا مشن 1947 ء سے کافی سال پہلے قائم کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کی اس کارروائی کو مولانا اللہ وسایا صاحب نے ’تاریخی قومی دستاویز 1974 ‘ کے نام سے شائع بھی کیا ہے۔ ‘‘

‎ان کے اس کالم کے بعد ہم نے حکومت پاکستان کی طرف سے شائع کردہ کارروائی کے مذکورہ صفحات اور ان کے آگے پیچھے کے بھی دس بیس صفحات کھنگالنے کے بعد اپنے مضمون ’حامد میر کی احمدیوں کے بارے میں تسلسل سے غلط بیانی‘ میں انہیں عرض کیا کہ ان صفحات میں ان کی بتائے گئے سوالات و جوابات کا کہیں ذکر نہیں۔

‎اس کے بعد ہم نے احتیاطاً مولانا اللہ وسایا قاسم صاحب کی شائع شدہ ’قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ ‘ کی جلد دوم (جس میں حصہ نمبر آٹھ ہے) میں حامد میر صاحب کے بتائے ہوئے صفحات دیکھے تو وہاں ’کچھ ‘ ذکر اسرائیل میں رہنے والے احمدیوں کا تھا (حامد میر صاحب کی تحریف کا تفصیلی ذکر آگے آ رہا ہے)۔ جب ہم نے ان صفحات کا حکومت پاکستان کی شائع شدہ کارروائی کے صفحات کے ساتھ موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بات حکومت پاکستان کی شائع شدہ کارروائی کے صفحہ 1007 سے 1015تک ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ حامد میر صاحب جیسے صحافی بھی حکومت پاکستان کی طرف سے شائع شدہ قومی اسمبلی کی کارروائی نہیں پڑھ رہے بلکہ احمدیوں کے ایک شدید معاند کی طرف سے شائع شدہ کارروائی پڑھ رہے ہیں جس میں جگہ جگہ اپنی مرضی سے حاشیہ آرائی کی گئی ہے۔

‎اب آتے ہیں حامد میر صاحب کے بتائے گئے سوالات و جوابات پر۔ حکومت پاکستان کی شائع شدہ کارروائی کے صفحہ 1007 پر اور مولانا اللہ وسایا کی شائع شدہ کارروائی کے صفحہ 1061 پر یحیی بختیار نے اسرائیل میں مشن کے حوالے سے سوال کیا جس کا جواب دیا گیا کہ اسرائیل میں احمدی موجود ہیں، جس طرح باقی لاکھوں مسلمان موجود ہیں۔ اس کے آگے، حکومت پاکستان کی شائع شدہ کارروائی کے صفحہ 1008 سے 1015 تک اور مولانا اللہ وسایا کی شائع شدہ کارروائی کے صفحہ 1062 سے 1070 تک، حامد میر کے باقی سوالات و جوابات نہ لفظاً موجود ہیں اور نہ ہی معنوی طور پر۔ یہاں تک کہ ’ہمارے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں‘ کے لفظ بھی اس طرح موجود نہیں بلکہ حکومت پاکستان کی شائع شدہ کارروائی کے صفحہ 1015 میں اور مولانا اللہ وسایا کی شائع شدہ کارروائی کے صفحہ 1070 میں یہ لفظ اس طرح ہیں ’کیونکہ بہت اچھے تعلقات ہیں ان لوگوں کے ساتھ‘، اور اس میں ’ان لوگوں کے ساتھ‘ سے مراد مسلمانوں کے فرقوں کے لوگ ہیں نہ کہ اسرائیل۔ یہاں امام جماعت احمدیہ کے اس بیان کی پوری نقل دی جاتی ہے:

‎’’مرزا ناصر احمد: اور 1924ء 1928ء میں جماعت وہاں بنی۔ 1928 میں۔ کبابیر۔ جو ہے جس کا نام یہاں آیا ہے۔ وہاں ایک سینٹر بنا جماعت کا۔ 1928ء سے وہاں کے تمام دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ نہایت برادرانہ تعلقات ہیں، اب بھی برادرانہ تعلقات ہیں۔ پوچھنا تو یہ چاہیے کہ جو وہاں دوسرے مسلمان ہیں، 95 فیصد، ان کے حقوق کے لئے اگر کچھ کیا جا سکے، کسی باعث بھی ہمارے تو ان کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں ڈپلومیٹک۔ ان کی خبر گیری کرنی چاہیے۔ تو اس طرف ہم توجہ نہ دیں اور وہ جو پیار کے آپس میں تعلقات ہیں، ان کو جائے اعتراض بنا لیں تو وہ کچھ اچھا نہیں لگتا اگر ان کو پتا لگے، جو ہمارے احمدی نہیں، 95 فیصد، وہ بھی اس کو پسند نہیں کریں گے، یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں، کیونکہ بہت اچھے تعلقات ہیں ان لوگوں کے ساتھ۔

‎جناب یحیی بختیار: اچھے تعلقات تو ہیں جی، مگر میں تو کہتا ہوں اگر clarification ہو جائے تو ٹھیک ہے نا جی، وہ۔ ‘‘

‎پورا بیان پڑھنے کے بعد یہ بات انتہائی صفائی سے معلوم ہو گئی کہ اس بیان میں یہ الفاظ، برادرانہ تعلقات، پیار کے آپس میں تعلقات اور اچھے تعلقات، دوسرے فرقوں کے 95 فیصد مسلمانوں کے لئے استعمال کیے گئے ہیں نہ کہ اسرائیل کے لئے جیسا کہ حامد میر صاحب نے غلط طور پر تاثردینے کی کوشش کی ہے۔ یحیی بختیار صاحب کے جواب سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی ”اچھے تعلقات“ کا رخ دوسرے مسلمانوں کی طرف ہی سمجھے تھے نہیں تو وہ فوراً ہی اس بات کو لے اڑتے۔

‎حامد میر صاحب، اب ایک صحافی ہوتے اور دوسروں کوہر وقت اخلاقیات کی تعلیم دیتے آپ کو اپنی اس تحریف کی کو کم از کم معافی مانگنی چاہیے کیونکہ آپ نے نہ صرف وہ سوالات یحیی بختیار کی طرف منسوب کیے ہیں جو انہوں نے اصل کارروائی میںکیے ہی نہیں تھے بلکہ آپ نے امام جماعت احمدیہ مرزا ناصر احمد صاحب کے الفاظ میں بھی اپنی طرف سے اسرائیل کا لفظ ڈال کراور کچھ الفاظ محو کر کے متکلم کے منشاء کے خلاف بات دکھانے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ اوپر ثابت کیا گیا ہے۔

‎حامد میر صاحب، سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ آج کل سب کو اپنی مسلمانی ثابت کرنے کا شوق چرایا ہوا ہے تو آپ نے بھی اپنی مسلمانی ثابت کرنی تھی مگر غلط بیانی کر کے آپ کون سی مسلمانی ثابت کر نا چاہ رہے ہیں؟

حامد میر صاحب، آپ کو معلوم ہی ہے کہ اسرائیل کے معاملے میں ہمارے عوام کتنے جذباتی ہیں، اور خاص طور پر آج کل جب کہ یروشلم کے معاملے پر ویسے ہی عوام کا غصہ حدوں کا چھو رہا ہے، آپ تحریف اور غلط بیانی سے کام لے کر احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا جو طریقہ اپنا رہے ہیں وہ انتہائی غلط ہے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ جیسے جید صحافی کو اتنے حساس معاملے پر ایسا کرنا زیب دیتا ہے؟
‎اللہ آپ کے حال پر رحم کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).