منٹو اور عصمت چغتائی کی فحاشی: لاہور کی عدالت میں


عصمت چغتائی اپنی کتاب “کاغذی ہے پیراہن” میں دو افسانوں پہ چلنے والے مقدموں کی عدالتی کارروائی بتا رہی تھیں۔ کتاب کا پرانا ایڈیشن تھا۔ صفحے سکین کرنے سے بات نہیں بننی تھی۔ تو وہ سارے مکالمے ٹائپ کر دئیے اور ادھر آپ کی عدالت میں حاضر کر دئیے۔ فحاشی کی تعریف کا تعین کرنے میں شاید یہ بحث کچھ مددگار ثابت ہو۔ اقتباسات حاضر خدمت ہیں؛

بو کی پیشی:

پیشی کے دن ہم کورٹ حاضر ہوئے اور وہ گواہ پیش ہوئے جنہیں یہ ثابت کرنا تھا کہ منٹو کی “بو” اور میرا “لحاف” فحش ہیں۔ میرے وکیل نے سمجھایا کہ جب تک مجھ سے براہ راست سوال نہ کیا جائے میں منہ نہ کھولوں۔ وکیل خود جو مناسب سمجھے گا، کہے گا۔

پہلے بو کا نمبر آیا

“یہ کہانی فحش ہے؟” منٹو کے وکیل نے پوچھا۔

“جی ہاں” گواہ بولا۔

“کس لفظ سے آپ کو معلوم ہوا کہ فحش ہے؟”

گواہ؛ “لفظ چھاتی”

وکیل؛ “مائی لارڈ لفظ چھاتی فحش نہیں ہے۔”

جج؛ “درست”

وکیل؛ “لفظ چھاتی فحش نہیں؟”

گواہ؛ “نہیں مگر یہاں مصنف نے عورت کے سینے کو چھاتی کہا ہے۔”

منٹو ایک دم سے کھڑا ہو گیا اور بولا

“عورت کے سینے کو چھاتی نہ کہوں تو کیا مونگ پھلی کہوں؟”

کورٹ میں قہقہہ پڑا، منٹو بھی ہنسنے لگا۔

“اگر ملزم نے پھر اس طرح کا چھچھورا مذاق کیا تو کنٹمپٹ آف کورٹ کے جرم میں باہر نکال دیا جائے گا یا معقول سزا دی جائے گی۔”

منٹو کو اس کے وکیل نے چپکے چپکے سمجھایا اور وہ سمجھ گیا۔ بحث چلتی رہی اور گھوم پھر کے گواہوں کو بس ایک چھاتی ملتا تھا جو فحش ثابت نہ ہو پاتا تھا۔

“لفظ چھاتی فحش ہے، گھٹنا یا کہنی کیوں فحش نہیں ہے؟” میں نے منٹو سے پوچھا۔

“بکواس” منٹو پھر بھڑک اٹھا، بحث چلتی رہی۔۔۔

لحاف کی پیشی:

کورٹ میں بڑی بھیڑ تھی۔ کئی اصحاب ہمیں رائے دے چکے تھے کہ ہم معافی مانگ لیں۔ وہ جرمانہ ہماری طرف سے ادا کرنے کو تیار ہیں۔ مقدمہ کچھ ٹھنڈا پڑتا جا رہا تھا۔ لحاف کو فحش ثابت کرنے والے گواہ ہمارے وکیل کی جرح سے کچھ بوکھلا سے رہے تھے۔ کہانی میں کوئی لفظ قابل گرفت نہیں مل رہا تھا۔ بڑے سوچ بچار کے بعد ایک صاحب نے فرمایا کہ یہ جملہ ۔۔۔ “عاشق جمع کر رہی تھیں” فحش ہے۔

“کون سا لفظ فحش ہے، جمع یا عاشق؟” وکیل نے پوچھا۔

“لفظ عاشق” گواہ نے ذرا تکلف سے کہا۔

“مائی لارڈ لفظ عاشق بڑے بڑے شعرا نے بڑی فراوانی سے استعمال کیا ہے” ۔ (اس کے بعد وکیل نے بہت سی مثالیں پیش کیں اور یہاں تک ثابت کیا کہ لفظ عاشق مقدس صحیفوں میں بھی مذکور رہا ہے)

“مگر لڑکیوں کا عاشق جمع کرنا بڑی معیوب بات ہے۔” گواہ نے فرمایا۔

“کیوں؟”

“اس لیے ۔۔۔ کیوں کہ ۔۔۔ یہ شریف لڑکیوں کے لیے معیوب بات ہے۔”

“جو لڑکیاں شریف نہیں ان کے لیے معیوب نہیں؟”

“آ۔۔۔۔ نہیں”

“میری موکل نے ان لڑکیوں کا ذکر کیا ہے جو شریف نہیں ہوں گی۔ کیوں صاحب بقول آپ کے غیر شریف لڑکیاں عاشق جمع کرتی ہیں؟”

“جی ہاں”

“ان کا ذکر کرنا فحاشی نہیں مگر ایک شریف خاندان کی تعلیم یافتہ عورت کا ان کے بارے میں لکھنا قابل مذمت ہے۔” گواہ صاحب زور سے گرجے۔

“تو شوق سے ملامت فرمائیے مگر قانون کی گرفت کے قابل نہیں۔”

معاملہ بالکل پھسپھسا ہو گیا۔۔۔۔

فیصلہ:

جج صاحب نے مجھے کورٹ کے پیچھے ایک کمرے میں طلب کیا اور بڑے تپاک سے بولے؛ “میں نے آپ کی اکثر کہانیاں پڑھی ہیں اور وہ فحش نہیں۔ اور نہ لحاف فحش ہے مگر منٹو کی تحریروں میں بڑی غلاظت بھری ہوتی ہے۔”

“دنیا میں بھی غلاظت بھری ہے۔” میں منحنی آواز میں بولی۔

“تو کیا ضروری ہے اسے اچھالا جائے؟”

“اچھالنے سے وہ نظر آ جاتی ہے اور صفائی کی طرف دھیان جا سکتا ہے۔”

جج صاحب ہنس دئیے۔

نہ مقدمہ چلنے سے پریشانی ہوئی تھی نہ جیتنے کی خوشی ہوئی۔ بلکہ غم ہی ہوا کہ اب پھر لاہور کی سیر خدا جانے کب نصیب ہو گی۔

کاغذی ہے پیراہن (صفحہ 105 تا 111)

عصمت چغتائی

ناشر؛ چوہدری اکیڈمی لاہور

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain