عامر لیاقت کے بارے میں ناقابل قبول عدالتی فیصلہ


اسلام آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ ٹیلی ویژن اینکر عامر لیاقت حسین پر کسی ریڈیو یا ٹیلویژن پروگرام کی میزبانی کرنے، کسی پروگرام میں رائے دینے یا مباحث میں حصہ لینے پر پابند عائد کی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے ایک حکم میں یہ بھی کہا کہ عامر لیاقت کسی ریڈیو یا ٹیلی ویژن اشتہار میں بھی حصہ نہیں لے سکتے۔ انہوں نے ایکٹرانک میڈیا اتھارٹی کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وہ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ عامر لیاقت کی طرف سے اس عدالتی حکم کے خلاف کوئی بھی مواد یا تبصرہ سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہو۔ اس بات سے قطع نظر کہ پیمرا اس حکم پر مکمل عمل درآمد کروانے کی کس حد تک صلاحیت رکھتا ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والا مواد براہ راست پوسٹ کیا جاسکتا ہے اور یہ صارفین پر منحصر ہے کہ وہ کسی تبصرے، رائے، ویڈیو یا تصویر وغیرہ کو کتنا پسند کرتے ہیں اور کس حد تک اس کو دیکھتے یا پڑھتے ہیں۔ تاہم یہ حکم ملک کے آئین کے تحت آزادی رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے اور کوئی عدالت کسی ایک فرد کی آواز کو دبانے یا رائے سلب کرنے کا ایسا حکم جاری کرنے کی مجاز نہیں ہو سکتی۔

عامر لیاقت حسین ایک متنازعہ ٹیلی ویژن اینکر ہیں ۔ انہوں نے متعدد بار اپنے پروگراموں میں ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور ایسی باتیں کہی ہیں جو دوسروں کے جذبات اور عقیدہ پر براہ راست حملہ تصور کی جاتی ہیں اور ان کے بعض بے بنیاد الزامات کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں کو بھی اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے جیو ٹیلی ویژن کے پروگرام ’عالم آن لائن ‘ سے شہرت حاصل کرنا شروع کی تھی لیکن انہی پروگراموں کے دوران وہ متنازعہ بیان دینے اور حرکتیں کرنے کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنے تھے۔ اس کے بعد وہ مختلف اداروں سے ہوتے ہوئے بول کے لئے ’ایسا نہیں چلے گا‘ کے نام سے ایک ٹاک شو کرنے لگے تھے جس کے دوران ملک کی تمام اہم شخصیات کی پگڑیاں اچھالنے کے علاوہ مختلف لوگوں پر بے بنیاد الزام تراشی اور فتویٰ بازی کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کو پیمرا نے بند کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن سندھ ہائی کورٹ نے عامر لیاقت اور بول کو ریلیف دے کر پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ گزشتہ ماہ عامر لیاقت نے مالی اختلافات کی وجہ سے بول ٹیلی ویژن چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ اب ان کی طرف سے ٹی وی ۔24 پر نیا ٹاک شو شروع کرنے کا اعلان سامنے آنے کے بعد ایک شہری نے عامر لیاقت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت اپنے ٹیلی ویژن پروگراموں میں مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ مذہبی عالم نہ ہونے کے باوجود فتوے جاری کرتے ہیں اور مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں۔ اس لئے ان پر ٹیلی ویژن پر پروگرام کرنے کے لئے تاحیات پابندی عائد کی جائے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ بادی انظر میں درخواست گزار کے عائد کردہ الزامات درست ہیں اس لئے عامر لیاقت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے اس حوالے سے 10 جنوری کو پیمرا سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اسلام ہائی کورٹ کے فاضل جج نے ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیئے بغیر اور اس کی طرف سے کوئی جرم سرزد ہوئے بغیر ہی قیاس اور گمان کی بنیاد پر ایک ایسا فیصلہ صادر کیا ہے جو ملک کے آئین کی روح کے خلاف ہونے کے علاوہ مسلمہ جمہوری روایت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ خواہ یہ فیصلہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیا گیا ہو لیکن ایسے عدالتی حکم کو قبول نہیں کیا جاسکتا جو کسی فرد کے عالمی طور سے تسلیم شدہ حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ عامر لیاقت نے اپنے پروگراموں میں غیر پیشہ وارانہ رویہ اختیار کیا اور بعض صورتوں میں نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کی بلکہ دوسرے شہریوں کے حقوق کو بھی پامال کیا۔ لیکن یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ملک کی کسی عدالت نے ابھی تک عامر لیاقت کو ان کے کسی سرزد جرم پر سزا نہیں دی ہے۔ البتہ اب ملک کی ایک اعلیٰ عدالت ممکنہ قانون شکنی کے پیش نظر ایک شخص سے اس کی آزادی اور روزگار کا ذریعہ چھیننے کا حکم صادر کررہی ہے۔ یہ فیصلہ اگر اسی طرح سے موجود رہا تو یہ ایک بری عدالتی نظیر ہوگی۔ اس لئے اسے نہ صرف اس حکم کو فوری طور سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اعلیٰ عدالتوں کو یہ باور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ان کا بنیادی فرض شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ کوئی شہری آئین کی فراہم کردہ سہولتوں سے محروم نہ ہو۔ عدالتیں شواہد کی بنیاد پر کسی جرم کی صورت میں فیصلہ اور سزا دینے کی مجاز ہوتی ہیں۔ اگر قیاس اور گمان کی بنیاد پر حکم جاری کئے جائیں گے تو ملک کی عدالتیں خود لاقانونیت پھیلانے کا سبب بنیں گی۔

آزادی اظہار ایک تسلیم شدہ حق ہے۔ اگرچہ بعض افراد اور عناصر اس حق کو دوسروں کے خلاف نفرت پھیلانے اور مختلف گروہوں کے خلاف فضا تیار کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں لیکن صرف اس اندیشے کی بنیاد پر کسی آواز کو دبانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی البتہ قانون شکنی کی صورت میں کوئی بھی عدالت کسی بھی شخص کی باز پرس کر سکتی ہے۔ سیاسی رائے یا صحافتی تبصروں کو رد کرنے کے لئے متبادل رائے سامنے لانا اور نفرت انگیز باتوں کو دلائل کے ذریعے مسترد کرنا ہی کسی جمہوری معاشرے کا طریقہ ہوتا ہے۔ عدالتیں ایسے معاملات میں حصہ دار بننے سے گریز کرتی ہیں۔ پاکستان کی عدالتوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی رائے کو احکامات اور سزاؤں کے ذریعے دبانا ممکن نہیں ہے۔ ایسی صورت میں یہ رائے زیادہ قوت اور شدت سے پھیلتی ہے جس کے معاشرے پر ناخوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali