ہم آدھے، پونے، بونے لوگ


میں اکثر سوچتا ہوں ہم کون ہیں؟ یقینا ہم ایک قوم تو ہیں نھیں۔ جس کے کچھ مشترکہ اہداف ہوتے ہیں۔ تو کیا ہم عوام ہیں؟ جی نھیں۔ اگر ہم عوام ہوتے تو کم ازکم ہمیں اپنے علاقے کی میونسپلٹی کا چیرمین منتخب کرنے کا حق تو ہوتا۔ کمال کرتے ہو آپ بھی۔ تو پھر ہم ہیں کون؟ بتاتا ہوں بھائی۔ ۔ مجھے تو لگتا ہے ہم ایک ہجوم ہیں یا انسانی ریوڑ کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ جو شاید کچھ مشترکہ ضرورتوں کے تحت بستی نما شہروں میں رھتے ہیں۔ رات کے اس پہر پاکستانی معاشرےپہ بات کریں تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ چلیں اسی اسلامی جمہوریے کے ایک چھوٹے سے یونٹ کی بات کرتے ہیں جو شاید پشتون بلوچ دو قومی صوبہ کہلاتا ہے اور اس کا کوئی صدر مقام ہے جسے شاید کوئٹہ کہتے ہیں۔ چلو اس شہر کی بات کرتے ہیں۔ مجھے پتہ تھا تم بات گھما پھرا کر کوئٹہ پر ہی لے جاؤ گے۔ ۔ ۔ ہاں جب پتہ ہے تو سنو نا۔ ۔ ہاں تو سناؤ نا۔ ۔ ۔ ہاں بات ہو رھی تھی کوئٹہ کی جو پورے بلوچستان کا چہرہ ہے۔ یہ بھی عجیب شہر ہے۔ کہنے کو تو میٹروپولیٹن ہے مگر جس گلی میں بلدیہ کا دفتر واقع ہے وہی صاف نھیں تو باقی شہر کی کیا بات کریں۔ اب کوئٹہ کے شہری یعنی انسانی ہجوم یہ پوچھنے سے تو رھا کہ کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز جو میئر کوئٹہ کو ملتے ہیں وہ آخر جاتے کہاں ہیں؟

ہر نیا آنے والا وزیراعلی بلوچستان یہ دعوی کرتا ہے کہ ہم کوئٹہ کو لٹل پیرس یا لٹل لندن بنائیں گے۔ ۔ ۔ محترم وزیر اعلی صاحب کوئٹہ کو کوئٹہ ہی رھنے دو اسے لندن یا پیرس مت بناؤ۔ صرف اتنا انتظام کردو کہ ذرہ سی بارش کے بعد کم ازکم جناح روڈ پر نالی کا پانی بہتا نظر نہ آئے تو کوئٹہ کے باسیوں پر آپ کا احسان ہو گا۔ اب یہ عزم، اختیار اور عمل وزیر اعلی کا ہے تو باقی کابینہ سے کیا توقع؟ اب صوبائی وزیر داخلہ سے کون پوچھے کہ کیا شہر میں بم دھماکے یا ٹارگٹ کلنگ سے مرنے والا یہ آخری انسان تھا؟ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے شہر میں کم لوگوں کو طبعی موت مرتے دیکھا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ کسی عام اور خاص شخصیت (خاکی کو چھوڑ کر) سے ملتے وقت سیلفی ضرور بنا لینی چاہیے کیا پتہ آخری ملاقات ہو۔ اور جس شہر کے محافظ کے گھر کی دیواریں روز بروز موٹی ہوتی چلی جائیں اور فٹ پاتھ سکٹرتا چلا جائے تو وھاں محض زندگی کی تمنا ہی کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ جس محافظ کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں وہ میری اور آپ کی حفاظت کیا خاک کرے گا۔

اب آتے ہیں سول بیوروکریسی کی طرف۔ یہ بلوچستانی بیوروکریٹ بھی لطیفہ قسم کےلوگ ہیں۔ آپ کبھی کوئٹہ میں سول سیکریٹریٹ کا چکر لگائیں اور کسی محنتی، زینہ با زینہ ترقی کرتے آفیسر سے اپنا کوئی جائز اور فوری حل طلب مسئلہ بیان کریں اور مدد چاھیں تو وہ آپ کو عینک کے اوپر سے یوں دیکھے گا جیسے آپ نے آس سے کوئی انہونی بات کہہ دی ہو۔ ان آفیسران کی کارکردگی کے متعلق اگر مزید معلومات درکار ہوں تو ذرا اس کالونی کا چکر لگائیں جہاں وہ رہائش پزیر ہیں۔ جی۔ او۔ آر کالونی کوئٹہ جہاں کوئی درجن بھر تو صرف صوبائی سیکریٹریز رھتے ہیں دیگر معاون اورماتحت آفیسران کی تو ایک طویل فہرست ہے۔ جی ہاں اسی کالونی میں آپ کو کچرے کے ڈھیر لگے نظر آئیں گے۔ یہ آفیسران مجھے اور آپ کو کیا ریلیف دیں گے؟ یہ تو اپنا گھر اپنی گلی نھیں صاف کرسکتے۔

اب یہ تو ہوگئے اعلی آفیسران اب بات کرتے ہیں چھوٹے موٹے آفیسران یا یوں کہیں کہ چست سرکاری اہلکار جن کے ہاتھ قومی خزانے کی چابی لگی ہوئی ہے ان کی اکثریت پولیس، کسٹم، اے جی آفس وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے۔ تو جناب یہ گریڈ 9 سے 14 کا بندہ آپ کو خوبصورت بنگلے کا مالک ملے گا اور گھر کے صدردروازے پر سبحان اللہ اور ماشاللہ کی تختی ضرور آویزاں ہوگی۔ اور صاحب خود کوئٹہ شہر میں ہی کابلی گاڑی پہ گھومتے ہوئےحلال اور تازہ گوشت ڈھونڈتے نظر آئیں گے۔ اور خوش اخلاق اتنے ہیں کہ پہلی ملاقات میں آپ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے ڈالیں گے۔ دیسی مرغی بھلے شہر میں کہیں نہ ملتی ہو مگر ان کو اپنے مریدوں کے طفیل مل ہی جاتی ہے۔ خالص خوراک کھانے کے اس حد تک عادی ہوتے ہیں کہ ناشتہ بھی کرنا ہے تو دیسی انڈے کے ساتھ۔ اور کڑاھی کھانی ہے تو مکھن والی۔ آپ اگر شہر میں ایسے دوستوں کو پیدل چلتے نظر آجائیں تو آپنی گاڑی کا ہارن بجا کہ آپ کو اپنی طرف ضرور متوجہ کریں گے۔

آپ بھلے لاکھ منع کرتے رھیں مگر وہ آپ کو اپنی گاڑی میں ضرور بٹھا کے چھوڑیں گے۔ بیٹھتے ساتھ ہی وہ آپ کو اپنی کہانی بتانا شروع کردیں گے۔ (جو آپ نے پہلے کافی دفعہ سن رکھی ہوتی ہے) یہی کہ آن کے والد صاحب ہزار گنجی سبزی منڈی میں معمولی مزدور تھے اور کس مشکل سے اس نے ہمیں پالا اور آج ہم تینوں بھائی اپنی محنت کے طفیل کس مقام پر ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور ساری گفتگو میں الحمد للہ اور ماشاللہ کا ورد تو بکثرت جاری رھےگا ہی۔ آپ سوچتے رہ جاؤ گے کہ جس بندے کو اخبار ڈھنگ سے پڑھنا نھیں آتا وہ آخر کون سی محنت کی بدولت اس اعلی مقام تک پہنچا ہے۔ اور آپ گریڈ سترہ کے ملازم ہونے کے باوجود مشکل سے سوتی کپڑے، بائیک کا پٹرول اور امپورٹڈ سگریٹ مہینے بھر کےلیے مینج کرتے ہیں (وہ بھی اگر آپ میری طرح غیر شادی شدہ ہیں تو) جی ہاں آپ سوچتے ہی رہ جاؤ گے لیکن جواب ندارد۔

اب یہ تو ہوگئے شہر کے سرکاری بندے، اب عام بندوں کی بات کرتے ہیں بلکہ کوئٹہ کے نوجوانوں کی بات کرتے ہیں۔ جن کی اکثریت شام کو شہر کے معروف ہوٹلوں میں چائے پیتی اور کھانے کھاتی نظر آئے گی۔ ان نوجوانوں کی دو کیٹیگریز ہیں ایک تو صرف آپ کو چائے خانوں میں نظر آئیں گے۔ دوسرے ذرا مالی طور پر خوشحال ہیں لہذا کاٹن کے کپڑے پہنے، گولڈ لیف سیگریٹ کا دھواں چھوڑ تے یہ لوگ بھی آپ کو چائے خانوں میں ہی نظر آئیں گے لیکن چائے پینے اور ٹی سٹال میں دیر تک گپ شپ کرنے کےبعد یہ پاس کے کسی ہوٹل میں لنچ یا ڈنر ضرور تناول فرمائیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس ہوٹل میں یہ کھانا تناول فرما رھے ہوتے ہیں ان ہوٹلوں کی اکثریت واش روم کی سہولت سے محروم ہے مگر مجال ہے جو کلف لوگ کپڑے پہنے یہ نوجوان ہوٹل مالک سے یہ سوال کرنے کی جسارت کریں کہ بھائی جب واش روم کےلیے جگہ نہیں تھی تو ہوٹل کیوں اور کیسے بنایا؟ یہ نوجوان اتنا نہیں سوچتے کہ ہم روزانہ ہزاروں روپے ان ہوٹلوں پہ لٹاتے ہیں مگر یہ ہوٹل والے معمولی اور بنیادی سہولت کیوں کر نھیں دے سکتے؟ یقینا اگر یہ نوجوان بطور احتجاج یہاں آنا بند کردیں تو ہوٹل والے کا کام ٹھپ ہو جائے گا اور چند دن میں ایسا واش روم بنا کر دے گا جو شاید اس کے گھر میں بھی نہ ہو۔ مگر یہ نوجوان اجتماعی سوچ سے عاری ہیں۔ ظاہر ہے نقل پاس ڈگریاں ساتھ ہوں تو سوچنا، احتجاج کرنا اور اپنا حق طلب کرنا تو کار دوشوار ہوا نہ۔ شہر میں پبلک واش روم نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں اور گلیوں سے بدبو آتی ہے مگر ہم تو عادی ہوچکے ہیں ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں۔ ہم سب کی پہچان، مسائلستان بلوچستان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).