ایک خاک بسر شخص اور بے نیاز ریاست


دسمبر کی پہلی برکھا جس روز ملتان میں اتری ہے، یہ اسی دن کی دم توڑتی شام کا تذکرہ ہے۔ اتوار کے دن کا نوالہ بھر کے، رات میں بدلتی شام بھیگے بدن کے ساتھ رخصت ہوتی تھی جب میں وہاں سے گزرا۔ دسمبر کی خنکی میں چھید کرتی بارش کی بوندیں زمیں بوسی کو لپکتی تھیں اور وہ اسی جگہ پڑا تھا۔ سرکاری دیوار کے قدموں میں بچھے سرکاری فٹ پاتھ پر۔ دیوار کے اندر کھڑے ایک پیڑ کی کچھ شاخیں دیوار کا قد پھلانگ کے سڑک کی جانب تجاوزکیے ہوئے تھیں۔ اس نے اپنا بوریا گھسیٹ کر ان شاخوں تلے کرلیا تھا کہ کم از کم بوندوں کی براہ راست چوٹ سے بچا رہے۔ وہ مَیل، گرد، دھوئیں سے سیاہ پڑتی اپنی رضائی میں دُبک کے لیٹا تھا۔ پاس سے ٹریفک گزرتی تھی مگر کوئی اس کی جانب توجہ نہ کرتا۔ میں چوں کہ روز اسے وہاں پڑا دیکھنے کا عادی تھا لہٰذا اس کی قیام گاہ کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کا خیال آیا تب میں نے دیکھا کہ تاریک اور پالے کی ماری شب میں وہ وہیں پڑا تھا۔ میرے اندر کہیں ضمیر کی بچی کھچی کرن ٹمٹمائی اور میرے جذبہءِ ہم دردی کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ چند ثانئے کو میں نے گاڑی آہستہ کی مگر دلیل نے مجھے قائل کیا کہ تم اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتے، الٹا فش باربی کیو کی جس دعوت پر جاتے ہو، اس سے بھی لیٹ ہوجاؤ گے۔ اور میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

میں اسے تین چار مہینے سے دیکھ رہا ہوں، اسی فٹ پاتھ پر۔ وحدت کالونی کے گیٹ نمبر ایک اور دو کے درمیان سڑک کے مغربی جانب والے فٹ پاتھ پر اس کا قیام ہے۔ گرمیوں میں تو وہ بنا کسی بچھونے کے پڑا رہتا تھا۔ سر اور داڑھی کے کھچڑی بال، گندے اور پریشان جو اس کی عمر پچپن ساٹھ برس بتاتے ہیں۔ میلے چکّٹ کپڑے اور خاک و دھول کی سیاہی چڑھا بدن۔ اسے ہمیشہ دو ہی حالتوں میں دیکھا، یا تو فٹ پاتھ پر بیٹھا سڑک پر پیر دھرے سگریٹ پی رہا ہے، یا پھر اپنے ہی بازو کا سرہانہ بنائے کسی کروٹ لیٹ کے سوتا ہے۔ اس کے اردگرد کوئی گندگی، نجاست نہیں ہوتی۔ کھاتا پیتا کہاں سے ہے؟ ، حوائجِ ضروریہ کوکہاں جاتا ہے؟ کوئی پتہ نہیں۔ ہاں رشید آباد چوک کی طرف یا شاہ شمس دربار کی طرف چہل قدمی کرتے پایا جاتا ہے۔

موسم سرد ہوا تو کوئی اللہ کا بندہ اسے روئی کا ایک گدا اور ایک پرانا کمبل دے گیا۔ پھراس کو ایک اوورکوٹ بھی میسر آگیا جس کے نیچے غلام عباس کے اوورکوٹ نامی افسانے کے مرکزی کردار کی طرح وہی پھٹے ہوئے میل خوردہ کپڑے تھے۔ سردی اور بڑھی تو کسی نے ایک رضائی بھی لادی۔ اب پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے وہ گدا بچھائے، رضائی اوڑھے پڑا نظر آتا۔ اکثر اس کی یہ ”املاک“ خالی نظر آتیں۔ وہ کہیں چہل قدمی کو یا حوائجِ ضروریہ سے فراغت کو گیا ہوتا۔ پچھلے ہفتے دو ایک دن اس کے نیچے ایک نئی چارپائی بھی نظر آئی۔ کسی نیک دل نے سوچا ہوگا کہ سرد زمین پر پڑا رہتا ہے، سو وہ چارپائی دے گیا مگر دوسرے ہی دن وہ غائب ہوگئی اور وہ پھر سے فرش نشیں ہوگیا۔

وہ بھکاری ہے نہ بظاہر فاترالعقل۔ اسے کبھی بھیک مانگتے دیکھا اور نہ ہی پاگلوں کی طرح خود کلامی کرتے، ہذیان بکتے یا پتھر اٹھاکے کسی کے پیچھے دوڑتے۔ بس خاموش اور اپنے آپ میں گم، گویا کہیں اپنے ہی اندر کے پاتال میں اترا ہو۔ توکل کی بہترین حالت کا اسیر۔ ننگے فٹ پاتھ پر سوتا تھا تو بھی اپنے حال میں گم تھا۔ بستر اور چارپائی سے ہوتا پھر سے زمین پر آرہا ہے تو کوئی شکایت، گلہ یا پروا نہیں۔ اس کے پڑوس میں چوپایوں کی نعل بندی کرنے والا ایک اللہ کا دوست بیٹھتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تو پتہ چلا کہ چارپائی چوری ہوگئی ہے۔ اس نے بتایاکہ میں سوچ رہا تھا کہ دیوارمیں لوہے کا ایک کڑا گاڑ کے چارپائی کو زنجیر بند کردوں۔ اگلی صبح اس سوچ کو عملی جامہ پہنانا تھا کہ رات کو چارپائی چوری ہوگئی۔ جس بھلے آدمی نے اپنی گرہ سے چارپائی لاکر دی، وہ بھی آدمی تھا اور جو اس حال مست کو پھر ٹھنڈی زمین پر پٹخ گیا، ”سو ہے وہ بھی آدمی“۔

اس پس منظر سے آگاہی کے بعد آئیے پھر سے پہلے پیراگرف کی آخری سطور کو لوٹ چلیں۔ اسے ٹپ ٹپ کرتی بوندوں میں پڑا چھوڑ کے میں آگے تو بڑھ گیا مگر سوچوں کے لباس میں گویا احساسِ جرم کا ایک پیوند لگ گیا۔ میں نے ان کوائری سے ایدھی ہیلپ لائن کا نمبر لیا اور ڈائل کردیا۔ آگے سے کوئی نیم خواندہ صاحب بولے۔ ان کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ اک لاوارث پالے اور بارش کے تیروں کی زد میں ہے، آپ کے ہاں اتنا بڑا ایدھی ہوم ہے، کیا اس کی دست گیری کرسکتے ہیں؟ جواب ملا کہ کیا خبر کون ہے، کوئی مشکوک و مشتبہ نہ ہو، پولیس کہے تو ہم اس کو لے سکتے ہیں۔ میں نے صورتِ حال کی سنگینی ایک دو مزید جملوں میں واضح کی تو بولے ”آپ کے پاس کوئی جگہ ہو تو اسے لے جائیں، ہم کچھ نہیں کرسکتے“۔ فون بند ہوگیا۔ میں نے ون فائیو پر فون کیا۔ ابھی مسئلہ بتا ہی رہا تھا کہ فون کٹ گیا۔ وہاں کوئی بھلا آدمی بیٹھا تھا، اس نے لینڈ لائن نمبر سے فون کیا کہ آپ کچھ بتارہے تھے۔ اس کو میں نے ساری بات سنائی تو بولا کہ ”سر! ہم صرف کرائم سین پر پولیس بھیج سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ پولیس فقط ایدھی کو ریفر کردے تو وہ لے جائیں گے اور ایک جان محفوظ ہوجائے گی۔

وہ نوجوان واقعی بھلا آدمی تھا۔ اس نے کہا ”سر! یہ علاقہ تھانہ لوہاری دروازہ میں آتا ہے۔ میں مشکوک شخص کے شبہ کی شکایت درج کرکے پولیس بھجوارہا ہوں۔ آپ کو فون آئے گا تو آپ ان کو سمجھا دیجئے گا“۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ قریب پندرہ منٹ بعد کسی موبائل نمبر سے فون آیا۔ کبیروالا کے لہجے میں سرائیکی بولتا کوئی پولیس ملازم تھا۔ باقاعدہ تفتیش کے اندز میں چند سوالات کیے۔ پھر معاملہ سن کر بولے ”اوہ بڈھا تاں روز اُتھائیں پیا ہوندا اے“۔ عرض کیا ”بے شک، مگر آج بلاکی سردی ہے، اوپر سے بارش اور وہ بغیر چھت کے برلبِ سڑک پڑا ہے“۔ آگے سے ارشاد ہوا ”مُڑ اتنی تکلیف اے تینوں تے اُس نوں گھر چا ٹِکا“ (اگر تمہیں ایسی ہی تکلیف ہے تو اسے ا پنے گھر لے جاؤ) پھر عرض کیا کہ حضور! آپ نے صرف ون ون فائیو پر ایدھی والوں کو فون کرنا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ پولیس ریفر کرے تو ہم لیں گے وگرنہ نہیں۔ اسی کرخت لہجے میں جواب ملا ”اچھا آندے پئے آں“۔ شب پونے بارہ بجے میں دعوت سے واپس آیا تو وہ جوں کا توں پڑا تھا۔ سچی بات ہے میں ڈر گیا۔ پالے سے ٹھٹھرتے اور بارش سے بھیگتے اندھیرے میں اس کے پاس جانے کی میری ہمت نہ ہوئی۔ پتہ نہیں زندہ ہے یا لاش کی صورت دھار چکا۔ ضمیر کی موہوم سی چنگاری پر خود غرضی، مجبوری اور بےبسی کی دلیلوں کی پھوار ڈالتا میں گھر آگیا۔

ایک محفوظ چھت تلے، نرم و گرم بستر میں گھس کر میں کتنی ہی دیر جاگتا رہا کہ میری سوچوں کے کارخانے میں ٹھکا ٹھک کام جاری تھا۔ ذاتی حیثیت میں مدد نہ کرسکنے پر اپنی مجبوریوں کی تاویلیں گھڑی جارہی تھیں۔ ان تاویلوں کے ڈربے میں خود کو محفوظ کرکے اس کھوج میں غلطاں و پیچاں ہوا کہ فکرِ انسانی نے صدیوں کی ریاضت سے یہ ریاست اور اس کے ادارے کس لئے بنائے ہیں۔ مجھے اس نعل بند نے بتایا کہ یہ شخص دو تین برس سے اسی فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔ حیرت ہے، کسی ریاستی ادارے نے ریاست کی اس شہری کی طرف توجہ نہیں کی۔ وہ بیمار بھی پڑتا ہوگا۔ اسے روٹی پانی کی طلب بھی ہوتی ہوگی۔ شہریوں کا انفرادی جذبہءِ ہم دردی اس کی نگہبانی کررہا ہے اور ریاستی ادارے مست مئے ذوقِ تن آسانی ہیں۔ ریاست اور اس کے اداروں کو قصوروار قرار دے کر میں نے سرد شب میں گرم بستر اور چھت میسر ہونے پر رب کا شکر ادا کیا اورسونے کی کوشش کرنے لگا، مگر پتہ نہیں میرے اندر کون چیختا تھا کہ تیرے شکرانے کے یہ بودے حرف و جملے آج بابِ قبولیت تک نہیں پہنچے۔

اگلی صبح بچوں کو سکول چھوڑنے کو نکلا تو رات بھر کی بارش ابھی برس رہی تھی۔ اس کے ٹھکانے کے پر فقط گدا اور تکیہ پڑے بھیگتے تھے۔ وہ خود اور رضائی غائب تھے۔ پورا دن کوئی سراغ نہ ملا، پچھلے پہر موسم کھلا تو وہی نعل بند اپنی اوپن ایئر دکان کھول کر بیٹھا نظر آیا۔ استفسار پر اس نے بتایا ”باؤ جی! اللہ کا کوئی نیک بندہ اسے لے گیا ہے اپنے ساتھ“۔ یہ سطریں جمعرات کو لکھی جارہی ہیں، ملتان کا آسمان ہنوز ابر آلود ہے اور فٹ پاتھ کی وہ جگہ خالی۔ سویرے دفتر جارہا تھا تو وحدت کالونی کے گیٹ نمبر ایک سے وہ اک عجب دھج سے برامد ہوا۔ تار تار لباس کی جگہ اجلی شلوار قمیص، اس کے اوپر آستینوں والا صاف ستھرا سویٹر، کانوں اور سر کے گرد لپٹا نیا مفلر۔ وہ سگریٹ کا کش لگاتا اک شانِ بے نیازی سے سڑک کنارے خوش خرام تھا، گویا زبانِ خامشی سے مجھ پر اور نجی و سرکاری اداروں پر چار حرف بھیجتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).