این جی اوز کو پیسے کون دیتا ہے


یہ کوئی پچیس سال قبل لاہور کا واقعہ ہے۔ ہمارا ایک نوجوان دوست کسی شدید بیماری کی وجہ سے معذور ہو گیا۔ اس کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹروں کو اس کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں سمیت، دائیں بازو کوہنی سے تھوڑا نیچے اور اور بائیں ہاتھ انگوٹھے کے علاوہ کاٹنے پڑے۔ اس کے گھر والے مزید علاج افورڈ نہیں کر سکتے تھے اس لیے ہم کئی دوست مل کر اس کے مزید عالج اور مصنوعی اعضاء لگالنے کے لیے ڈونیشن اکٹھی کر رہے تھے۔ خرچے کا اندازہ 98200 روپے تھا جو کہ 1992 میں بہت زیادہ رقم تھی۔ اس لیے ہم پریشان تھے۔ اس دوران میں ہماری چندہ مہم کی خبر ہمارے اپنے علاقے کے ابھرتے ہوئے ایک بزنس مین ملک الطاف دھرکنہ کو ہوئی۔ ملک صاحب نے ہمیں ملاقات کے لیے بلا لیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ پروفیسر اظہار کے علاج اور مصنوعی اعضاء کے لیے 98200 روپے درکار ہیں۔

ملک الطاف دھرکنہ نے 98000 نقد ہمیں ادا کر دیے اور پروفیسر اظہار کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ہمارے اس نیک کام کی تعریف کر کے ہماری حوصلہ افزائی بھی کی۔

کوئی دو دہائیاں پرانی بات ہے۔ برطانیہ کے ایک شہر بریڈفورڈ میں دیسی مٹھائیوں کی دکان کے فرش کو کچھ مرمت کی ضرورت تھی اور اس کام کے لیے دو گورے مستری آئے۔ دونوں لمبے تڑنگے، تنومند گورے نوجوان کام کے لباس میں ملبوس تھے۔ کہنیوں اور گھٹنوں پر بھی ہیلمٹ نما ٹوپیاں چڑہا رکھی تھیں۔ انہوں نے آ کر اپنے ہتھیار وغیرہ رکھے اور ہیلو ہائے کے بعد کام کا جائزہ لیا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ فرش پر پڑے ہوئے مٹھائیوں کے بڑے بڑے کاؤنٹر اپنی جگہ سے ہٹانے کی ضرورت پڑے گی۔

مٹھائیوں کے ان کاؤنٹرز کے اوپر دو چیریٹی کے ڈبے پڑے ہوئے تھے جن میں کچھ برطانوی سکے اور نوٹ نظر آ رہے تھے۔ کاؤنٹرز کو ہٹانے سے پہلے ان چیڑیٹی کے ڈبوں کو اٹھا کر کہیں ایک طرف رکھنا ضروری تھا۔ ان دونوں گورے مستری نوجوانوں نے احترام سے چیریٹی کے ڈبوں کو دیکھا، دونوں نے اپنی پھٹی پرانی میلی کچیلی جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور جتنے بھی سکے ان کے ہاتھ میں آئے وہ بغیر گنے انہوں نے چیریٹی کے ان ڈبوں میں ڈال دیے۔ اس عمل کے بعد انہوں نے چیریٹی کے ڈبوں کو احترام سے اٹھا کر ایک جانب رکھ دیا۔ چیریٹی کے یہ دونوں ڈبے ایک فلسطینی اور عراقی بچوں کے ساتھ کام کرنے والی دو این جی اوز کے تھے۔ ان گورے نوجوانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ یہ پیسے کس کی امداد کے استعمال ہوں گے۔ اس لیے انہوں نے ان ڈبوں کے اندر سکے ڈالنے سے پہلے یہ پڑھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ ان کے لیے ان ڈبوں کا چیریٹی کا ڈبہ ہونا ہی کافی تھا۔

ایک اور واقعہ ایک آئیس کریم شاپ کا ہے۔ اس کے انٹری گیٹ پر ایکشن ایڈ کی جانب سے ایک درمیانے سائز کا پوسٹر لگا ہوا تھا جس پر ایک افریقی بچی کی نہایت خوبصورت فوٹو پرنٹ ہوئی تھی۔ اس بچی کی آنکھیں غیر معمولی چمک کی وجہ سے بہت خوب صورت اور نمایاں تھیں۔ جسے نوٹس نہ کرنا ناممکن تھا۔ تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ اس بچی کی آنکھوں کو فلاں بیماری (میں بیماری کا نام بھول گیا ہوں) ہے جس کا علاج نہ کیا گیا تو یہ بچی بینائی کھو دے گی۔ اس کے علاج پر کل خرچ ساڑھے آٹھ پاؤنڈ ہے۔ آج آپ آئیس کریم نہ کھائیں اور یہ پیسے ایکشن ایڈ کو دے دیں تو اس بچی کو نابینا ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ پیسے ڈالنے کے لیے ایکشن ایڈ کا چیریٹی باکس آئیس کریم شاپ کے اندر موجود تھا۔ میں نے کچھ دیر وہاں کھڑے ہو کر اس اشتہار کا اثر دیکھنے کی کوشش کی اور ایک نوجوان جوڑے کو اس چیریٹی باکس میں پیسے ڈالتے بھی دیکھا۔

تقریبا ہر معاشرے میں اور ہر طبقے چیریٹی کو اہم اور قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ ہم پاکستانی لوگ بھی بڑے اچھے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم بہت چیریٹی دینے والی قوم ہیں۔ تمام مزاہب بھی چیریٹی دینے پر بہت زور دیتے ہیں۔ ساری دنیا میں ہی اچھے لوگ اپنے بچوں کو چیریٹی دینا سکھاتے ہیں اور انہیں دینے ولا بناتے ہیں۔

پاکستان یا اس جیسے دوسرے ترقی پزیر اور غریب ممالک مین جو انٹرنیشنل این جی اوز کام کرتی ہیں وہ غریب لوگوں کی دی ہوئی چھوٹی چھوٹی رقوم پر ہی چلتی ہیں اور ان ملکوں میں سوشل ویلفئیر یا ترقیاتی کام کرتی ہیں۔

وہ عام لوگ جو اچھا دل رکھتے ہیں ان کی اپنی زندگیوں میں کوئی خاص کمی نہیں ہے۔ ان کے بچوں کو سکول، صحت، صاف پانی اور کھیل کود اور سیر سپاٹا کی سہولیات میسر ہیں وہ جب سنتے ہیں کہ ابھی میں دنیا میں ایسے علاقے ہیں جہاں خوراک، صحت اور تعلیم سے محروم بچے اور مائیں ہیں۔ یہ کہ ابھی بھی بچے ہیضے سے اور مائیں بچوں کو پیدا کرتے ہوئے مر جاتی ہیں تو وہ ایسی ماؤں اور بچوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے لیے جو چند سکوں سے لے کر چند سو ڈالر تک دے رہے ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں ہمارا مذہب تبدیل کرنا نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے وہ عام لاکھوں عام شہری ہماری نیشنل سیکیورٹی کو بھی تباہ کرنے کے در پے نہیں ہوتے۔

پس خیال: ہماری حکومت آج کل انٹرنیشنل این جی اوز کی رجسٹریشن کینسل کر رہی ہے اور درجنوں ایسے چیریٹی اداروں کو پاکستان میں کام کرنے سے روک رہی ہے۔ اس کا اصلی نقصان تو غریب ماؤں اور ان کے بچوں کو ہونا ہے جن کا نہ ہم خود خیال رکھ پا رہے اور نہ ہی کسی اور کو ان کا خیال رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik