معاشرتی دباؤ نہ ہوتا تو سیکس کے بارے میں زیادہ لکھتا: مستنصر حسین تارڑ


ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ سے ہم نے ایک ملاقات میں چند سوالات کئے جن کے انہوں نے جامع جوابات دیے۔ وہ اپنا نقطہ نظر صراحت سے بیان کرتے ہیں، جس میں سب کو راضی رکھنے کی پالیسی کارفرما نہیں ہوتی، اس لیے اختلاف کے پہلو بھی نکلتے ہیں۔ امید ہے ان کی باتیں پڑھنے والوں کو پسند آئیں گی۔

٭٭٭   ٭٭٭

نثر اور شاعری ،دونوں میں کس کی قوت زیادہ ہے؟

شاعری اپنے آپ کو commit نہیں کرتی اور ابسٹرکٹ ہوتی ہے۔ وہ ایک بیان دیتی ہے، جو صورت حال پر منطبق ہو جاتا ہے۔ فیض نے کہا ہے کہ ’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد، اب یہ دھبے ویت نام اور فلسطین یا کہیں کے بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ مشرقی پاکستان کے بارے میں ہے۔ نثرکو کمٹ کرنا پڑتا ہے۔ ٹالسٹائی ابسٹرکٹ نہیں ہو سکتا، اس کو ”جنگ اور امن“ میں نپولین کی جنگ کی صحیح صحیح تفصیل دینی ہے۔ نثر جس طرح پورے سماجی منظر نامے کی وضاحت کرتی ہے شاعری نہیں کرتی۔ کسی عہد کو اس انداز میں محفوظ کرنا کہ اسے ریفرنس کا درجہ مل جائے یہ صرف نثر کر سکتی ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں چلے جائیں وہاں نثر ہی ادب کی نمائندہ ہوتی ہے، شاعری بہت کم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں شاعری کی روایت زیادہ مضبوط ہے۔ اس میں ہماری سستی کو بھی دخل ہے۔ ہم بیٹھ کر لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔

مجید امجد ایسا شاعر ہے جس کو میں نے محسوس کیا کہ وہ نثر کی طرح کمٹ کرتا ہے۔ وہ زمین سے اٹھ کر افلاک میں ایک ابسٹرکٹ سی پرواز نہیں کر رہا ہوتا بلکہ آپ کے اردگرد موجود ہوتا ہے۔ پریم چند کی ”شطرنج کے کھلاڑی“ ایک طرف رکھیں اور میر کی شاعری دوسری طرف تو اس عہد کی ابتلا پریم چند کے ہاں جس طرح نظر آئے گی، میر کے ہاں نہیں نظر آئے گی۔ پریم چند بتائے گا کہ واقعات کن کن عوامل کی بنیاد پر اور کیوں ہوئے لیکن شاعر ’کیوں‘ کی طرف نہیں جاتا۔ وہ کیوں کے بعد کی کیفیات کو بیان کرتا ہے۔ شاعری کا اپنا کنٹری بیوشن ہے لیکن میرا نقطہ نظر ہے کہ تاریخ میں گزرے واقعات کی ایف آئی آر نثر ہی لکھ سکتی ہے۔“

 انتظار صاحب کہتے ہیں کہ اُردو نثر میر اور غالب پیدا نہیں کر سکی؟

 ٭اُردو نثر کو میر اور غالب پیدا کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ قرة العین حیدر کو آپ کس طرح میر اور غالب سے کمتر درجے پر فائز کر سکتے ہیں۔ غالب کا ایک شعر پڑھ کر آپ حظ اٹھاتے رہتے ہیں لیکن” آگ کا دریا“ اور ”کار جہاں دراز“ کے لیے آپ کو محنت کرنی پڑے گی۔ نثر وقت مانگتی ہے۔ خون مانگتی ہے۔ کمٹمنٹ مانگتی ہے۔ افسانہ بھی اس لیے مقبول ہے کہ اس میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ آپ کہتے ہیں کہ نثر میں کوئی میر اور غالب پیدا نہیں ہوا لیکن دیکھئے کہ کیا یورپ میں شاعری میں کوئی ٹالسٹائی، دوستو فیسکی یا حورے سارا میگو پیدا ہوا ہے؟ ٹھیک ہے نرودا ہے، ناظم حکمت ہے لیکن اگر آپ نے لیول ہی مقرر کرنا ہے تو کیا نرودا گارشیا مارکیز کے لیول کا ہے؟

سب سے زیادہ تخلیقی خوشی کس کتاب کو لکھنے میں ملی؟

٭ میں نے جب یہ پڑھا کہ چولستان میں قدیم زمانے میں سرسوتی نام کا دریا تھا، جس کے سوکھنے سے اس کے کنارے آباد تہذیب انجام کو پہنچ گئی تھی۔ اس بات نے میرے اندر جوت جگائی کہ ایک شخص نے ”جس کو تصور کیا کہ وہ میں ہی ہوں‘ اس راز کو پا لیا ہے کہ دریا سوکھ رہا ہے اس لیے یہ تہذیب ختم ہو جائے گی، اس راز کو اسے دوسروں تک منتقل کرنا ہے جس کا بوجھ وہ سہہ رہا ہے۔ بہاؤ کے لکھنے میں بہت زیادہ مشکلات تھیں۔ کوئی پیکر ایسا نہیں مل رہا تھا، جس پر آپ بنیاد رکھ سکیں۔ اس دور کی بنیاد نہیں تھی۔ اس زمانے کے لوگوں کے سوچ، جنسی میل جول، رشتہ داری اور مذہب ، الغرض کسی چیز کے بارے میں بھی معلوم نہیں تھا ۔ اس تاریکی میں چھوٹی سی چنگاری اور دیا تحقیق کا ہے جس سے آپ اس کو بناتے ہیں۔ یہ ایک چیلنج ہے۔ بہاؤ ایک متھ ہے جو میں نے پیدا کی اور لوگ سجمھتے ہیں کہ ایسا ہوا ہے۔ اس ناول کے لکھنے میں مجھے بارہ برس لگے۔ اس ناول نے مجھے بڑا ٹف ٹائم دیا۔ ناول میں رواں ہوا تو جتنا انبساط اور تخلیقی خوشی اس ناول کے لکھنے کے دوران ہوئی کسی اور تحریر میں نہیں ہوئی۔ میں ایک اور دنیا میں سفر کر رہا تھا جو میرے آس پاس موجود نہیں تھی، یہ میری اپنی تخلیق کردہ تھی۔ چھوٹا سا خالق ہونے کا لطف جو ہے میں نے اس ناول میں اٹھایا ہے۔ میں کسی بھی کردار کو کسی بھی طرح کرافٹ کر سکتا تھا کیونکہ اس دور کا تقابل نہیں تھا اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کردار اس طرح تو ہوتا نہیں۔

کیا تحقیق سے ناول کو نقصان پہنچتا ہے؟

٭ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ زیادہ تحقیق ناول کونقصان پہنچاتی ہے۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو میری کوشش یہی تھی کہ ناول باقی رہے اور اس کو پڑھتے ہوئے یہ بات زیادہ نمایاں نہ ہو کہ میں نے بہت تحقیق کی ہے بلکہ قاری پڑھتے ہوئے ٹھٹکے اور اسے شک گزرے۔ میں نے ویدوں کو پڑھا تو خیال تھا کہ ان کو میں ناول میں استعمال کروں گا لیکن بعد میں محسوس کیا کہ اس سے ناول کا مجموعی ڈھانچہ متاثرہو گا، اس لیے میں استعمال سے گریزاں رہا اور سوچا کہ اس سے ناول تحقیق اور قدامت کی طرف چلا جائے گا۔ انڈس ویلی تہذیب کے بارے میں نے پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ دو تین کتابیں بنیادی ماخذ کا درجہ رکھتی ہیں باقی سب انہیں سے مستعار ہیں۔ انڈس ویلی کی ٹرم پاکستان بننے کے بعد وجود میں آئی، اس سے پہلے وہ ہڑپہ تہذیب کہلاتی تھی۔ اس ناول کے سلسلے میں ملتان کے مرزا ابن حنیف نے بہت مدد کی۔“

 فکشن میں کردار گرفت سے نکلنا چاہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟

٭میں ناول میں کردار کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کردار ایک زندہ وجود کی طرح ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ اپنا رستہ آپ متعین کرتا ہے اور آپ کو اس کے پیچھے چلنا پڑتا ہے۔ ایسے میں مصنف اگر اس پر اپنی من مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے گا تو کردار مردہ ہو جائے گا۔

٭ایسا کوئی موضوع جسے سماجی یا مذہبی دباؤ کے ڈر سے ضبط تحریر میں لانے سے گریز کیا ہو؟

٭ میرے خیال میں ایسا کوئی موضوع نہیں ہے۔ معاشرے کی دانشورانہ سطح ہوتی ہے اسے عبور کر کے لکھنے والا مطعون ہوتا ہے۔ لکھنے میں مذہبی دباؤ نہیں البتہ معاشرتی دباؤ زیادہ رہا ہے۔ میرے خیال میں ایسا ہونا بھی چاہیے، جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں اس کی کچھ تعظیم بھی کرنی چاہیے۔ میرے ناولوں میں جو گالیاں ہیں ان پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔ معاشرتی دباؤ نہ ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ میری تحریروں میں سیکس کے بارے میں زیادہ مواد ہوتا۔ لکھنے والا اگر بڑا ہے تو وہ چینلج قبول کر کے معاشرے کی حدود و قیود کو تخلیقی طور پر پار کر سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).