ہمارا کتا کتا اور آپ کا کتا ٹامی


\"hashir\" اگر تو ثبات محض تغیر کو ہے تو پھر ڈر کاہے کا ہے۔ یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں کس نے دیا کہ کون سا موضوع قابل بحث ہے اور کون سا نہیں۔ اگر آپ اپنے آپ کو رائٹسٹ یا اسلامسٹ کہیں تو آپ کا کہا صحیفہ آسمانی ٹھہرے جس پر مکالمہ، مناظرہ اور بحث لایعنی ہو اور کہیں آپ شومئی قسمت سے لبرلزم کے طویلے میں باندھ دئے جائیں تو آپ کا نظریہ بے وقت کی راگنی بلکہ خرمستی سے تعبیر ہو اور ایک دفعہ پھر اس پر مکالمہ، مناظرہ اور بحث لایعنی ہو لیکن اس دفعہ وجوہ کے پنڈارے میں مال کا رنگ بالکل بدل جائے۔ ہمارا کتا کتا اور آپ کا کتا ٹامی۔ ۔ ۔ بہوت نا انصافی ہے بھیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اگر قرارداد مقاصد طے ہے۔ اسلامی دفعات طے ہیں۔ مذہب کے تعین کا حق بھی پارلیمنٹ کے بل کے تحت طے ہے۔ ملک کا اسلامی جمہوریہ ہونا طے ہے۔ آئین طے ہے۔ سیاست کی حرکیات طے ہیں۔ دین کا دائرہ طے ہے۔ قانون کی کتاب طے ہے اور اس سب پر بات کرنا محض تضعیع اوقات ہے تو حضور والا پھر کریں کیا۔ خیال کے گھوڑے کس شاہراہ پر دوڑائیں۔ ہر جگہ تو آپ نے \” راستہ بند ہے اورکام بھی بند ہے \” کے بورڈ لگا دئیے ہیں۔

چلئے اس بات کو گولی مارئےکہ متفقہ آئین کو 23 ٹانکے کیوں لگے -کوڑے میں ڈالئے اس بات کو کہ مروجہ شعائر پر اسلامی نظریاتی کونسل کو ہر پندرھواڑے نیا اپھارہ کیوں ہوتا ہے۔ اس کو بھی چھوڑیں کہ جس پارلیمنٹ کے اختیارات \”طے \” ہیں اس کے بنائے گئے قانون پر الٹی میٹم جاری کرنے کا اختیار دائیں ہاتھ کو تو ہے لیکن بایاں ہاتھ اس کی تشریح پر انگلی بھی ہلائے تو کاٹ دیا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی بیس کروڑ بھیڑوں کو نہیں بتاتے کہ ان کی جان، ان کی شان، ان کا نظریہ پاکستان ملک بننے کے کئ سال بعد جناب جنرل شیر علی خان نے ایجاد کیا تھا۔ مرغی پہلے آئی کہ انڈہ اب کیا فرق پڑتا ہے۔ یوں بھی انڈے کا خاگینہ بن گیا ہے اور مرغی کی کڑاہی کی بس ہڈیاں بچی ہیں۔ یہ بھی جان کر کوئی کیا کرے گا کہ مٹھی کو جبڑے میں گھسا کر آنکھیں موندے جو خواب شاعر مشرق انارکلی کے فٹ پاتھ پر سجی تصویروں میں دیکھ رہے ہیں وہ ہماری پانچویں کلاس کی معاشرتی علوم والا خواب نہیں ہے۔ اسلامیان ہند کے ترجمان تب کیا کہتے تھے اور اب کیا دعوے کرتے ہیں، ظاہر ہے یہ موازنہ بھی تضیع اوقات ہے۔ بقول آپ کے سارے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہ چکا ہے۔ ویسے بر سبیل تذکرہ اب دریا سوکھے پڑے ہیں۔ برسوں کا جھوٹ سیاہ پانی بن کر جوہڑ کی مانند ٹہرا ہوا ہے اور ہمارے بچے اسی زہریلے پانی میں اپنے گرد نصاب کی زنگ آلود سائکل کی اتاری ہوئ ٹیوب میں دانشوران ملت کی تقریروں کی ہوا بھر کر روز چھلانگ مارتے ہیں۔ لئی نالے کو دریائے سواں کہنے سےاگر پانی صاف ہو سکتا تو بات ہی کیا تھی۔

کیا کریں جناب

لب سی لیں اور خاموش رہیں۔ ۔ ۔ ۔

مشورہ ہے تو صائب۔ اس میں جان بھی بچتی ہے پر رات کو نیند نہیں آتی۔ کچھ اس علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ہے۔ خواب آور گولیاں تو آپ کے بھائی بند مدت سے دے ہی رہے ہیں۔ پر ایک وقت آتا ہے کہ کسی کسی پہ دوائی اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ ہم انہی لاعلاج مریضوں میں سے ہیں۔ اب تو یہ بھی جان گئے ہیں کہ طبیبان امت نے اس کو چھوت کا مرض بتایا ہے۔ پھیلنے سے بچاؤ کی ایک تدبیر تو آپ نے بتا دی۔ آنکھیں بند کر لی جائیں اور جہاں دائیں دروازے سے معالج قدم رکھے تو زور زور کے خراٹے بھی لینا شروع کر دیں۔ ہم آپ کو سچا خیر خواہ مانتے ہیں کیونکہ اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں پردہ رہے گا نہیں اور اردگرد کے معصوموں کو آگہی کے عذاب سے بچانے کے لئے پھر کسی غازی کو ایک اور ناخوشگوار ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔

کسی نے کہا تھا کہ دنیا میں یا تو نیکو کار ہوتے ہیں یا گناہ گار۔ پوچھا گیا کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کون نیک ہے اور کون نہیں تو جواب ملا کہ بھائی یہ فیصلہ تو نیکوکار کرتے ہیں۔ تو جناب فیصلہ تو آپ کر ہی چکے ہیں۔ چلئے ہم جہنم کے کندے ہی سہی پر ہم نہ رہے تو آپ کس کے مقابل متقی ٹہریں گے۔

کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ پر سوچتا ہوں کہ معاشرے کی اجتماعی دانش کے مظاہر تو بہت بار نتیجہ آور ہوئے ہیں۔ کبھی آئین کی صورت، کبھی قانون کی صورت، تو کبھی مذہب کی صورت۔۔۔  اور اکثریت نے بارہا ان پر سر تسلیم خم بھی کیا ہے اور اپنے اپنے وقت کی گمراہ روحوں کو زبان بندی کا مشورہ پہلے بھی دیا گیا ہے پر دنیا کیا ہوتی اگر سقراط، اسپارٹیکس، ابن رشد، منصور، گلیلیو، جان آف آرک، نیلسن منڈیلا، روزا پارکس، مارٹن لوتھر کنگ اور احمد بن حنبل یہ مشورہ مان لیتے۔ کیا ہوتا اگر کوئی سولی نہ چڑھتا، کوئی ہجرت نہ کرتا اور کوئی آگ میں نہ کودتا۔۔۔ کیسی دنیا ہوتی وہ۔۔۔ شاید آپ کو بھی راس نہ آتی۔۔۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments