تشدد کے واقعات کے بعد شمالی وزیرستان کے عام شہریوں سے بدسلوکی کی شکایات


پاکستان

شمالی وزیرستان سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں کہیں کوئی دھماکہ یا حملہ ہو جائے تو اس علاقے کے لوگوں پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے سزائیں دی جاتی ہیں اور ان کی تحقیر کی جاتی ہے۔

سوشل میڈیا صارفین اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ بعض سیاسی رہنماوں نے بھی اپنے بیانات میں کہا ہے کہ چند روز پہلے سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد بڑی تعداد میں اہلکار اس علاقے میں آئے اور مقامی لوگوں کو گھروں سے نکال کر مردوں کو ایک طرف عورتوں اور بچوں کو دوسری طرف کرکے ان کی عزت نفس پامال کی گئی اور دو درجن سے زیادہ افراد کو ساتھ لے گئے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور انسانی حقوق کی تنظیم کے سابق چیئرمین افراسیاب خٹک نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں مقامی آبادی کو پہلے بے گھر کیا اب ان کی تحقیر کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید کی ’پہلی اور آخری لڑائی‘

‘یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی وزیرستان ہے’

فاٹا اصلاحات کی کہانی

انھوں نے ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت شمالی وزیرستان ایجنسی میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا محاصبہ کرے جہاں پہلے لوگوں کو بڑے عرصے تک دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ پھر ان کے مکان اور دکانیں لوٹی گئیں اور اب ان کی تحقیر کی جا رہی ہے۔ ‘

حکومت پر کڑی تنقید کی وجہ دو روز پہلے میران شاہ کے قریب سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد مبینہ طور مقامی لوگوں سے روا رکھا گیا رویہ بتایا گیا ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کہیں کوئی دھماکہ یا حملہ ہو جائے تو اس کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کرکے لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ تین روز پہلے پیش آئے واقعے کے بعد اب بھی علاقے میں کرفیو ہے۔

محسن داوڑ ایڈووکیٹ کا تعلق شمالی وزیرستان ایجنسی کے علاقے درپہ خیل سے ہے۔ انھوں نے گذشتہ روز ایک اخباری کانفرنس میں بھی کہا تھا کہ کہیں کوئی بارودی سرنگ کا دھماکہ ہو یا کوئی دیسی ساختہ بم کا دھماکہ کر دے تو اس علاقے کو گھیرے میں لے کر وہاں لوگوں کو ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ حملہ آور فورسز کے حوالے کرو۔

انھوں نے کہا کہ ’چند روز پہلے سکیورٹی فورسز پر جب حملہ ہوا تو اس کے چند منٹوں کے بعد سکیورٹی اہلکار مقامی آبادی میں پہنچ گئے جہاں ہر گھر سے لوگوں کو گھروں سے باہر نکال کر ساری رات شدید سردی میں باہر کھڑا رہنے پر مجبور کیا اور ہر گھر کی تلاشی لی ہے۔ ‘

پاکستانی فوج

آپریشن ضرب عضب جون سال 2014 میں شروع کیا گیا تھا اور دو سال کے بعد یہ کہا گیا کہ بڑی تعداد میں شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے

ان کے بقول ’صرف یہی نہیں ان تمام افراد کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا گیا جیسے وہ سب مجرم ہیں۔ ان میں معمر افراد شامل تھے۔‘

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان ایجنسی کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد بھی ان کے علاقوں میں تشدد کے واقعات پیش آ رہے ہیں اور ہر واقعے کے بعد مقامی لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔

نیشنل یوتھ آرگنائزیشن کے چیئر مین محسن داوڑ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز پر تشدد کے واقعے کی وہ سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور فوج کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

عام طور پر حکام کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں سرکاری یا سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کیے جاتے ہیں وہاں مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ اس لیے کی جاتی ہے تاکہ اصل ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔

محسن داوڑ نے کہا کہ سکیورٹی کا سارا انتظام سکیورٹی فورسز کے پاس ہے اور اگر کسی شخص پر شک ہے تو انھیں گرفتار کرکے تحقیقات کی جائیں لیکن یہ مناسب نہیں ہے کہ تمام لوگوں کی عزت نفس کو پامال کیا جائے۔

محسن داوڑ نے کہا کہ ساڑھے تین سال تک شمالی وزیرستان کے لوگ در بدری کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے اب واپسی ہوئی ہے لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بارودی سرنگوں کے دھماکے اب بھی ہو رہے ہیں جن میں مقامی لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں حالانکہ انھیں یہ بتایا گیا تھا کہ ان علاقوں سے بارودی سرنگیں مکمل صاف کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سڑک کنارے دیسی ساختہ بم بھی نصب کیے جاتے ہیں۔

شمالی وزیرستان ایجنسی میں فوجی آپریشن ضرب عضب جون سال 2014 میں شروع کیا گیا تھا اور دو سال کے بعد یہ کہا گیا کہ بڑی تعداد میں شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور بیشتر علاقے شدت پسندوں سے صاف کر دیے گئے ہیں جس کے بعد لمحہ وار لوگوں کو واپس اپنے علاقوں کو منتقل کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp