آج سپریم کورٹ، لاہور رجسٹری میں کیا ہوا؟


چھٹی کے روز صبح سویرے دھندلا لاہور ڈاکٹر شاہد مسعود کو باہیں پھیلائے سپریم کورٹ رجسٹری میں خوش آمدید کہہ رہا تھا، کورٹ روم نمبر ایک سے متصل بار روم میں درجنوں وکلا اور صحافی نو بجے ہی بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے اور کبھی سرگوشیوں اور کبھی باآواز بلند پوچھ رہے تھے کہ ‘کی بنے گا اج ڈاغٹر دا؟” کوئی ثبوت وی ہیگا ایہدے کول یا ایویں ہوائیاں نیں۔؟ (کیا بنے گا آج ڈاکٹر کا؟ اس کے پاس کوئی ثبوت بھی ہے یا ہوائیاں چھوڑتا ہے؟) ڈاکٹر صاحب بھی وقت سے پہلے نو بجے کے آس پاس ہی اسی روم میں آفتاب باجوہ، اظہر صدیق، عبداللہ ملک اور دیگر وکلا کے ہمراہ بیٹھے چائے نوش فرماتے رہے۔ اچانک سنا کہ موصوف فرما رہے ہیں، “یہ کون ہیں فرانزک والے۔۔؟ انہیں نہیں معلوم ان کا ٹاکرا بیک وقت ایک صحافی اور ڈاکٹر سے پڑ گیا ہے۔” بعد میں قبلہ ڈاکٹر صاحب تحقیقاتی صحافت پر وکلا کو گپ شپ کے انداز میں لیکچر دیتے رہے۔ پونے دس بجے کورٹ روم نمبر ون کچھا کھچ بھر گیا۔ دس بجے کورٹ روم کا پراجیکٹر آن کر دیا گیا۔ معلوم ہوا آج بھی ڈاکٹر صاحب کی کوئی ویڈیو پیش کی جائے گی۔ کاشف عباسی، حامد میر، فہد حسین، منصور علی خان، سعد رسول، مظہر عباس، اسد اللہ خان، اسد کھرل، عارف نظامی، نسیم زہرہ، مجیب الرحمان شامی، آئی اے رحمان، چوہدر ی غلام حسین، آفتاب اقبال ، ضیا شاہد، کامران خان، میاں عامر محمود، سہیل وڑائچ، عارف حمید بھٹی، اسلام آباد سے عاصمہ شیرازی، قیوم صدیقی، عمران وسیم، اے وحید مراد، عقیل عباسی ، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، ڈی جی فرانزک ڈاکٹر طاہر اشرف، آئی جی پنجاب، سلمان اکرم راجہ اور دیگر جید وکلا و صحافی کمرہ عدالت میں اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے خاکسار بار بار قبلہ ڈاکٹر صاحب کا چمکتا چہرہ دیکھتا رہا، ان کے تاثرات بتا رہے تھے جیسے وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ، دیکھا! ناچیز نے کیسی رونق برپا کر رکھی ہے۔ بیٹھنے کی ترتیب میں چیف جسٹس کے سامنے بائیں جانب اور ہماری دائیں جانب دوسری قطار کے تقریبا وسط میں ڈاکٹر صاحب تشریف فرما تھے، روایتی کریم کلر کی قمیض اور ڈارک کوٹ میں ملبوس ڈاکٹر صاحب کے دائیں بائیں کاشف عباسی، مظہر عباس اور فہد حسین تشریف رکھتے تھے۔ اسی قطار میں تین کرسیاں چھوڑ کر منصور علی خان بھی پائے گئے۔ ایک سو سڑسٹھ اکاونٹس کی خبر دینے والے اسد کھرل قدرے تاخیر سے آئے، آتے ہی پراجیکٹر کے پاس کھڑے ہو کر مقبول عوامی رہنما کی طرح عوام الناس کو ہاتھ ہلا کر سلام کرتے رہے۔ کمرہ عدالت کے عین وسط میں روسٹرم کے بالکل قریب سرکاری وکلا کا بنچ تھا، جہاں نظر دوڑائی تو تین چار بھاری بھرکم کتابیں پڑی دکھائی دیں۔ دو کتابیں جانی پہچانی سی معلوم ہوئیں، ایک میڈیا اینڈ ماس کمیونیکشین لاز ان پاکستان اور دوسری میڈیا لاز اِن پاکستان تھی۔ کورٹ روم کی آخری قطاروں میں کھڑے افراد میں سرخ رنگ کے بلیزر میں ملبوس بول نیوز کے تین چار رپورٹرز نمایاں دِکھ رہے تھے۔

دس بج کر ستائیس منٹ پر جسٹس منظور ملک تشریف لائے، ساتھ ہی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی تشریف لے آئے اور اسی ترتیب سے اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے۔ چیف جسٹس نے تمام صحافیوں کے آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ آپ سب کی موجودگی سے آج فائدہ اٹھائیں گے، کیا معلوم رات ہو جائے۔ تشکر کا اظہار جناب چیف جسٹس پوری سماعت کے دوران بار بار کرتے رہے۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے زینب قتل کیس میں پیش رفت بارے استفسار کیا۔ چند لمحوں بعد انہوں نے سرکاری وکیل عاصمہ حامد سے پوچھا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کیس کا کیا بنا۔؟

سرکاری وکیل نے بتایا کہ چوبیس جنوری کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعووں کو ٹیک اپ کیا، پروگرام کی سی ڈی اور ٹرانسکپرٹ تک کا بغور معائنہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا: بینک اکاوئنٹس والی بات کی کیا تفصیلات ہیں؟ جس پر جواب میں سرکاری وکیل نے کہا کہ اس سلسلے میں رپورٹ آپ کی خدمت میں جمع کرا دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے تو مجھے دو نام بھی دئیے تھے، ایک وفاقی وزیراور ایک اور وزیرکا۔ دونوں ناموں کی پرچی میری جیب میں موجود ہے۔ شاہد مسعود صاحب اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے آبجیکشن کرنے لگے تو چیف جسٹس نے انہیں اوور رول کر دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن گویا ہوئے اور کہا کہ یہ نام ایک وفاقی وزیر اور ان کے جاننے والے کسی بااثر شخص کے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے برملا کہا تھا کہ حکومت مسلسل جھوٹ بول رہی ہے، یا حکومت ثابت کرے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ یہ شخص علی عمران اکیلا نہیں بلکہ اس کے پشت پناہی پر مضبوط لوگ ہیں، حتی کہ بین الاقوامی مافیا کا ذکر بھی کیا گیا۔

چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کہا ڈاکٹر شاہد مسعود جے آئی ٹی میں پیش ہوئے؟ ان کا چینل کونسا ہے؟ کئی ایک آوازوں میں نیوز ون کا نام پکارا گیا۔ وکیل نے جواب دیا کہ ڈاکٹر صاحب نوٹس کے باوجود جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئے۔ چیف صاحب نے دوبارہ استفسار کیا کہ یہ سینتیس اکاوئنٹس ہیں؟ سرکاری وکیل نے سٹیٹ بنک، فرانزک لیب، ڈی آئی جی، اور دیگر اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ رپورٹ کے صفحہ نمبر پانچ پر اس سوال کا جواب دستیاب ہے۔ یہ اکاوئنٹس سرے سے ہی وجود نہیں رکھتے۔ چیف جسٹس نے پھر پوچھا: یہ موبائل اکائنٹس کیا ہوتے ہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ یہ ایزی پیسہ کے سلسلے میں استعمال ہوتے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے پھر ڈی جی پنجاب فرانزک لیب سے روسٹرم پر بلاتے ہوئے پوچھا کہ یہ وہی مجرم ہے جو قصور میں زینب سے پہلے پیش آئے سات آٹھ کیسز میں ملوث ہے؟ جواب میں ڈاکٹر طاہر اشرف نے تصدیق کی کہ جی ہاں! ملزم عمران ہی ہے۔ اس پر عدالت نے ہدایات جاری کیں کہ چالان پیش کریں اور جلد از جلد اس کیس کو حتمی انجام تک پہنچایا جائے۔ پھر جناب چیف جسٹس زینب کے والد حاجی امین سے مخاطب ہوئے اور انتہائی دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ہم سب بہت دکھی ہے، آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ اس موقع پر جسٹس منظور ملک نے ریمارکس دئیے کہ ڈی این اے کے ثبوت بہت مضبوط ہوتےہیں، کورٹ کا وقت ضائع نہ کیا جائے، ایسی تٖفصیلات ایکسپوز کرنے سے گریز کریں جس سے کسی فریق کو فائدہ یا نقصان ہو۔ چیف جسٹس نے تمام اداروں بالخصوص پولیس حکام کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی وہ حاجی امین کیساتھ انتہائی احترام کیساتھ پیش آئیں اور حاجی صاحب کو ہدایت کی کہ وہ جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ اسی موقع پر عدالت نے حاجی امین اور ان کے وکیل آفتاب باجوہ پر کورٹ روم سے باہر میڈیا سے گفتگو کرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی اور حاجی امین سے کہا کہ آپ اس معاملے میں احتیاط برتیں اگر شکایت ہو تو ہم سے رجوع کریں۔

اس طرح کارروائی کا پہلا مرحلہ ختم ہوا۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami