کپتان بچ گیا اب زرداری تیری باری


کپتان کو جتنے پیروں کی حمایت حاصل ہے اسے خود بھی چھوٹا موٹا ولی سمجھا جا سکتا ہے۔ نوازشریف نا اہلی کا فیصلہ تو کپتان نے گھر بیٹھ کر سنا تھا۔ وجہ کوئی ولی ہی جان سکتا کہ نون لیگی پہلوان گھول کرنے پر ہی نہ تل جائیں۔ کپتان کے اپنے کیس کا فیصلہ آ رہا تھا۔ وہ جناح کیپ پہن کر کراچی پھر رہا تھا۔

لفافے کی امید پر کہنےدیں کہ کپتان پر جناح کیپ سج سی گئی ہے۔ کپتان نے کراچی میں صنعت کاروں سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ بہت سنجیدگی سے ان کی باتیں سنی ہیں۔ ایک متوقع حکمران کی طرح برتاؤ کیا ہے۔ مزے کی بات بھی سنیں نوازشریف کے قریبی ساتھی کا جس ایسوسی ایشن میں زور ہے، کپتان کو انہوں نے ہی دعوت دے رکھی تھی۔ میاں صاحب کے قریبی ساتھی اس ملاقات سے خود غائب رہے۔

کراچی کے سیٹھوں نے کپتان کو کافی کھری کھری سنائیں ہیں۔ البتہ احتیاط کرتے ہوئے کپتان کو یہ کہہ کر حوصلہ دیا کہ لوگوں کو زبان تم نے ہی دی ہے، اے عظیم کپتان۔ سیٹھوں نے پتہ ہے کیا کہا ایک سیٹھ نے کہا کپتان تم نے ہمیں بالکل چور ہی بنا دیا ہے۔ کپتان وضاحتیں دیتا رہا کہ نہیں وہ ٹیکس چوری کا کہتا تھا۔ تو کپتان کو یہ سننا پڑا کہ آپ کو پتہ بھی ہے کہ ٹیکس کے مسائل ہیں کیا۔ کپتان کو یہ بھی سنایا گیا کہ دھرنوں والی آئٹم پیش کر کے اس نے بزنس کا کیسے ناس مارا ہے۔ کپتان نے سب کچھ بہت حوصلے سے سنا۔ سیٹھوں نے بھی پھر دھندے کی بات کی۔ ان کھلے ڈلے رابطوں سے کپتان اور سیٹھ نزدیک ہوئے ہیں۔ البتہ کپتان کے کراچی سے اکلوتے ممبر قومی اسمبلی کی مٹی ہر سیٹھ نے رولی ہے۔ شکائتیں لگا لگا کر۔

آپ کو ادھر ادھر کی باتوں میں لگا لیا ہے۔ بتانا یہ تھا کہ کپتان اب سندھ میں حکومت بنانے کے لیے سنجیدہ امیدوار کے طور پر سامنے آنے والا ہے۔ کپتان کا وہ ساتھی جو خبروں کے مطابق سیف ہاؤس میں فاروق ستار اور مصطفی کمال کی ہر ملاقات میں موجود رہتا تھا، اب اس کی نئی ڈیوٹی یہ لگی ہے کہ فاروق ستار کو بھول کر کمال گروپ کو پی ٹی آئی پر لاد دیا جاوے۔ کچھ اور نہ سمجھیں یہ ڈیوٹی کپتان نے لگائی ہے۔ سیاسی گیم یہ لگائی جا رہی کہ متحدہ کا ووٹ تین حصوں میں تقسیم نہ بھی ہو تو کیا جائے۔ الطاف حسین کا آزاد گروپ جب فاروق ستار اور پی پی گروپ سے مقابلے پر اترے تو کمال گروپ کپتان کے ساتھ مل کر ان دونوں کو شکست دے۔ یہ سب ممکن کرنے کے لیے سیٹھوں سے کپتان کی حالیہ ملاقاتیں پھل لا کر رہیں گی۔

کراچی سندھ کی حکومت نہیں بناتا۔ ایک بات یاد آ گئی دو ہزار دو میں الطاف بھائی نے کراچی کا وزیر اعلی لانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ مطالبہ سننے والوں کا ہاسا نکل گیا تھا۔ بھائی کو سنجیدہ دیکھ کر اک مزیدار آفر کی گئی۔ آفر یہ تھی کہ آپ کا وزیر اعلی تو نہیں آ سکتا لیکن وزیر اعلی کون ہو گا یہ فیصلہ آپ کریں۔ بھائی کو اک غرارہ پسند آیا اور گھوٹکی کا سردار وزیر اعلی بن گیا۔

نوازشریف کو سندھ حکومت میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی تھی۔ ان کی سوچ تھی کہ اتنا زور لگا کر اگر مخلوط حکومت میں لیاقت جتوئی اور شاہ جی والی ڈھیلی سی حکومت بنوا کر ہی بلیک میل ہونا تو پی پی کیا بری ہے۔ سکون سے صوبہ پی پی چلائے گی جس کا جہاں زور ہے وہ حکومت بنائے۔ کوئی تیسرا آ کر ہمیں لڑائے گا نہیں اور کام چلتا رہے گا۔ پالیسی اچھی تھی لیکن سندھ کے پی پی مخالف وڈیرے رل گئے اس پالیسی سے۔

کسی سندھی دوست سے بات کریں وہ زرداری کو اگلے الیکشن میں سندھ کا فاتح بتا دے گا، ٹھیک بتائے گا۔ سندھ میں بھٹو زندہ ہے آج بھی اہم ہے۔ پی پی کو اس بھٹو فیکٹر کےعلاوہ بھی اک بات کا ایج ہے۔ پی پی ہی ہے جو سندھی کو اسلام آباد میں اقتدار دلواتی ہے۔ اس کے باوجود سندھ میں پی پی کے مخالف بہت ہیں۔ ایک بری حکومت سے تھک چکا ہے سندھی ووٹر بھی ہے۔

ویسے تو سندھ میں پی پی کو ایک ایک حلقے میں تین تین مضبوط امیدوار دستیاب ہیں۔ کاغذ پر دیکھیں تو پی پی کی زیرو اپوزیشن ہے۔ یہ اپوزیشن سامنے آئے گی لیکن تب جب کوئی کھل کر پی پی کی مخالفت میں کھڑا ہو گا۔ کپتان وڈیرے کی تصادم پسند طبعیت کو اٹریکٹ کر رہا ہے۔ وہ جب کسی کی مخالفت کرتا ہے تو کھل کر کرتا ہے۔ ڈنکے کی چوٹ نام لیتا ہے۔ اپنے ٹارگٹ کا پھر پیچھا کرتا ہے۔ میدان میں بھی اور سوشل میڈیا کی کائنات میں بھی اس کی دھلائی کا پکا بندوبست کرتا ہے۔

سندھ میں ایسے کئی وڈیرے ہیں جو کپتان سے کہیں زیادہ آگے جا کر پی پی کی مخالفت کریں گے۔ لیکن وہ جس کے پیچھے لگ کر ایسا کریں گے اس سے پکے قول قرار چاہیں گے۔ ممتاز بھٹو، شاہ محمود قریشی کے ہم زلف ہیں۔ قریشی صاحب اپنے ہم زلف کو پی ٹی آئی میں نہیں لا سکے تھے۔ ممتاز بھٹو کو امید تھی کہ نوازشریف زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے اپنے بھائی کے اعلانات پر عمل کریں گے۔ جب ایسا نہ ہوا تو ان کی مایوسی قابل دید تھی۔

سندھ سے سیاسی پرندوں کی ڈاریں اب ہم پی ٹی آئی کی شاخوں پر اترتے دیکھیں گے۔ زرداری صاحب کو پہلا سنجیدہ سیاسی چیلنج درپیش ہونے جا رہا ہے۔ کپتان کا نعرہ اب یہی ہو گا کہ اب زرداری تیری باری۔ زرداری صاحب کی واحد امید سندھی ووٹر ہی ہے جو پس پردہ سازشوں کے مستقل خلاف ہے۔ کھلے میدان میں سیاسی مقابلے پسند کرتا ہے۔ یہ ووٹر اتنا بھی سائیں نہیں ہے کہ زرداری صاحب کے بدلتے موقف اور طاہر القادری کے پاس حاضری کو نظر انداز کرے۔ گیم آن ہے دیکھیں کیا ہو لیکن اب زرداری تیری باری یہ پکا ہے۔ اس کے امکانات ممکنات پر جلدی تفصیلی حاضری ہو گی۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi