کراچی یونیورسٹی کبھی معتدل مزاج ہوا کرتی تھی


یہ 1968 کے آس پاس کی بات ہے جب میری والدہ کراچی یونورسٹی میں اسلامک ہسٹری کی طالبہ تھیں۔ اُس زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین فعال تھی اور اُس کے باقاعدہ انتخابات ہوتے تھے۔ اسلامی جمیعتِ طلبہ اُن دنوں کراچی یونیورسٹی میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف تھیں جن کو اُس وقت کوئی منہ نہیں لگاتا تھا۔

امی بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ یونین کے انتخابات موقع پر جمیعت کے لڑکے اُن کے گروپ کے پاس آئے اور کہا کہ اس دفعہ آپ کا گروپ انتخابات میں حصہ نہ لے۔ جس پر امّی کے گروپ نے جمیعت کے لڑکوں سے کہا کہ آپ اپنی کمپین چلائیں ہم اپنی ، جس کو کامیاب ہونا ہوگا وہ ہو جائے گا، یونین کے انتخابات میں حصہ لینے کا سب کا حق ہے۔ کچھ دنوں بعد امّی کے گروپ کے بارے میں یہ مشہور کردیا گیا کہ یہ گروپ کمیونسٹ ہے ( اُس زمانے میں کمیونسٹ ہونے اور کافر ہونے میں کوئ فرق نہیں تھا)۔ یہ تھے وہ انتہاپسندی ( جس میں ایک انسان دوسرے انسان کے نظریات سے اختلافات میں یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اُس کا قتل تک کر بیٹھتا ہے) کے بیج جو مذہب کے نام پر جماعتِ اسلامی نے ملک کی جامعات میں بوئے جن کا سب سے بدترین نشانہ کراچی یونیورسٹی بنی کیونکہ جمیعت کی انتہاپسندی کے ردِعمل میں اےپی ایم ایس او نے جنم لیا جس نے مزید بگاڑ پیدا کیا اور ایک انتہائ شاندار تعلیمی ادارہ تباہ و برباد ہو گیا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شتر مرغ کی طرح اس خطرے سے آنکھیں نہ چُرائیں۔ انتہاپسندی ہمارے معاشرے میں کینسر کی صورت اختیار کرگئ ہے اور اس کا احساس ملک میں رہ کر نہیں ہوتا بلکہ جب ایک پاکستانی ملک سے باہر نکلتا ہے تو وہ روز مرّہ کی زندگی میں اپنے اور دوسرے ملکوں سے آنے والے لوگوں کے رویے میں ایک واضح فرق کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے کہ دوسرے لوگ اتنے غصیلے تو نہیں ہیں جتنا میں ہوں۔

مجھے اپنی والدہ کی زمانہ طالب علمی کی کچھ تصاویر ملی جس سے اندازہ ہوا کہ اُس زمانہ میں کراچی یونیورسٹی ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کے لئے اپنے دروازے وا رکھتی تھی۔ لیکن چند ناعاقبت اندیشوں (خاص طور پر اسلامی جمیتِ طلبہ) کو ایک ایسا فورم جہاں مختلف و متضاد خیالات و نظریات رکھنے والے جمع ہوتے تھے، تبادلہ خیال کرتے تھے، دنیا بھر میں  رونما ہونے والے واقعات پر سیر حاصل بحث کی جاتی تھی، نئی سوچ، نئی راہیں، نئے افکار کو جانچا جاتا تھا، پرکھا جاتا تھا، کی چہل پہل، لوگوں کا اپنے مخالفین کی رائے اور نظریات کو دوستانہ ماحول میں سننا، تمیز، تہزیب اور شائستگی کے ساتھ مخالفین کے سامنے اپنی دلیلوں سے اختلاف کرنا ایک آنکھ نہیں بھایا اور اُنھوں نے ایک درسگاہ کو کفر واسلام کی جنگ کا اکھاڑہ بنا دیا۔

مزید تباہی پاکستان کے فوجی آمروں نےطالبِ علموں کے ہاتھوں میں قلم کی جگہ کلاشنکوف پکڑا کر پھیلائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).