جنرل نیازی کا پستول اور قومی مفاد


دسمبر کی ایک رات تھی۔ صلاح الدین کمپنی کے لان کے باہر پوری پلاٹون کھڑٰی تھی۔ عمومی طور پہ سردیوں میں اس طرح کا اجتماع، موزے، جوتے اور قمیض سے بے نیاز ہوا کرتا ہے مگر ہمیں حکم تھا کہ پی ٹی کٹ، پل اوور، ٹریک سوٹ اور جتنے کپڑے اس کے اوپر پہنے جا سکتے ہیں، پہنے جائیں تا کہ وزن کم کرنے میں مدد مل سکے۔  جونہی سینئیر جنٹلمین کیڈٹ نے کارپورل کو تمام لوگوں کے حاضر ہونے کی خبر سنائی۔  طویل قامت کارپورل میں کوئی اور ہی روح حلول کر گئی۔ وہ گرجے

Gen Niazi s pistol is still at Indian Military Academy. Who will bring it back?

(جنرل نیازی کا ریوالور بھارت کی ملٹری اکیڈمی مین رکھا ہے۔ تم میں سے کون اسے واپس لائے گا؟)

ہم تمام لوگ تقریبا دھاڑے

“Me Sir… “

حکم ملا

“Then, bloody well, shoot up….. top floor…. And get down through Qasim company… I want all of you to be back in 3 minutes”

اگلے تیس پینتیس دن تک یہی معمول رہا۔ شام ڈھلتے ہی ہماری باکسنگ ٹریننگ، سقوط ڈھاکہ کے کسی لمحے سے شروع ہوتی اور رات گئے تک جاری رہتی۔ نہ ہمارے کارپورل نے کبھی ہمیں اس سے زیادہ بتانا مناسب سمجھا نہ تھکے ماندے کیڈٹس میں کبھی یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اکہتر کی جنگ کو مکتی باہنی، دشمن کی سازش، سیاستدانوں کی ناہلی وغیرہ وغیرہ سے پرے دیکھیں۔

وقت کی یہی عادت اچھی ہے کہ یہ گزر جاتا ہے۔ اب 2007 کے اس دعوت نامے کے کچھ پرزے، ایک چرمی بریف کیس میں بند ہیں جس میں، جنرل کیانی کی کمان سنبھالنے کی تقریب کی ترتیب چھپی تھی۔ وہ ہارون رشید صاحب کے دیدہ بینا میں اسلام کے بہترین سپہ سالار تھے یا گوجر خان کے دور بین درویش سے  سوات آپریشن کی رموز سمجھتے تھے، منگوٹ کے بھائی ان کے حق میں برادران یوسف بنے یا سرائے عالمگیر کے بھائی جان، یہ باتیں اب آٹھ سے نو کے میڈیائی جادوگروں کا رزق ہیں یا از قسم واٹس ایپ گروپوں کا کھاجا۔ میرا ماننا ہے کہ جنرل کیانی، 1971 کے حوالے سے فوج میں بہت سے حقائق کو سامنے لانے کی وجہ سے تا دیر یاد رکھے جائیں گے۔ اس پہ طرہ یہ کہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی تمام جنگی کارروائی، سٹاف کالج کے نصاب کا حصہ بھی بنا دی گئی۔

پہلی بار دیناج پور، سید پور، ٹھاکر گائوں،اور راج شاہی، شہروں کی صورت نقشوں پہ دکھائی دئیے، تو پتہ لگا کہ بے داغ سبزے کی بہار کیا ہوتی ہے۔ جوں جوں جنگی منصوبوں کی لکیریں گہری ہوتی گئیں، ایک ایک کر کے شہر اپنے مکینوں سمیت، ان ڈویژنوں تلے دب گئے جن کی بنیادوں میں ان کا اپنا لہو تھا۔

رنگ پور میں  تئیس بریگیڈ، آٹھ پنجاب، 26 ایف ایف کے نیلے پیلے ڈبے ابھرے، تو کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ اس شہر کی وجہ شہرت کار مائیکل کالج بھی تھا۔  بریگیڈئر اختر انصاری کی کمان میں آنے سے پہلے یہ شہر بیگم رقیہ سخاوت حسسین کی معرفت مشہور تھا۔

پبنہ، پاکستانی دفاع کی اس پہلی لکیر (جس میں میمن سنگھ، بھیراب بازار، چاند پور اور تنگیل شامل تھے) کا حصہ بننے سے خیر پور میرس کی طرح بنتر ڈالنے والوں اور جگے جیسے پوبنہ نامی ڈکیت کی وجہ سے بھی مشہور تھا۔ جب اس شہر کی زمین پہ ، دور مار مشین گنوں کی دو شاخہ خندقیں نہیں کھدی تھیں، اس شہر کا سیف الاعظم، فضائوں کا شہپر تھا۔

کمانڈر گل زریں کی کمان میں آنے سے پہلے کھلنا کے پانیوں میں سورج کی حکمرانی تھی، جس کے ڈوبنے اور ابھرنے کے منظر، مبہوت کرنے کا دعوی رکھتے تھے۔ کرنل فضل حمید کی قیادت میں آنے والی مجاہد بٹالین اور ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورسز سے پہلے، سندربن کے علاقے میں فطرت کا راج تھا۔

مگر اتنا سب کچھ جاننے کی فرصت تھی کس کے پاس۔ ہمیں تو باکسنگ کی پریکٹس کرنی تھی یا سٹاف کالج کا امتحان پاس کرنا تھا۔

مان لیجئے کسی دن، کوئی اٹھتا ہے اور جا کر وہ ریوالور لے بھی آتا ہے تو کیا 21 فروری 1952 کا وہ دن بھی لیتا آئے گا جب محمد صلاح الدین، عبدالجبار، عبدالبرکت، رفیق الدین احمد اور عبدالسلام کی زندگیاں، اس ماں بولی کو بچانے کے لئے وار دی گئیں جسے چند سال بعد آئین کی رو سے رائج کیا گیا۔

مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کی کہانی صرف ڈھاکہ کی مرکزی شاہراہ کا نام جناح ایوینیو سے بانگا بندھو ایونیو ہونے کی  داستان نہیں۔۔ ایک طرف کے لوگ، مانک شا کا کیپٹن احسن ملک کی بہادری کا اعتراف، جمال پور گیریژن کے آس پاس گھومتی بریگیڈئیر ہردیت سنگھ کلیر اور کرنل احمد سلطان کی چٹھیاں، جوان سال قربانیوں کی پر خلوص مثالوں، اور حزن میں ڈوبے تاسف کے ساتھ کرتے ہیں۔ دوسری طرف کے لوگ، تاشقند کے بعد بنگالیوں کو جانور قرار دینے والے فیلڈ مارشل سے بات شروع کرتے ہیں اور بوچر آف بنگال سے پلٹن میدان تک آتے ہیں۔ مگر کیا سولہ دسمبر ادھر ادھر کے ان چند لوگوں کا معاملہ تھا۔

16 دسمبر 1971 کی صبح کے دامن میں وہ رات ہے جس میں مغربی پاکستان کی مشرقی پاکستان سے بے  اعتنائی اور سرد مہری کے کئی برس دفن ہیں۔ یہ اندھیرا اس قدر گھٹا ٹوپ ہے کہ وزیر آباد کے جتنے بھی لیفٹینینٹ عارف اپنے لہو کے دئے جلانے چاہیں، ویسٹریج والے جنرل فرمان کی ڈائری سے ٹپکتے لہو کے دھبے انہیں بجھنے نہیں دیں گے۔

پچھلی صدی جب پندرہ برس کی ہوئی تو ریڈیو بھی جنگ کے محاذ پہ جا پہنچا۔ کسی نے ہیمنگ وے سے اس کے خیالات جاننے کا سوچا۔ خبر ڈھونڈھنے والوں کے سوال پچھلے پانچ ہزار سالوں سے نہیں بدلے ۔۔

“جی ہیمنگ وے کیسا محسوس کر رہے ہیں ریڈیو پہ جنگ کی خبریں سن کر” ۔۔۔

ہیمنگ وے بولا ” کچھ اچھا نہیں ہوا۔ پہلے جنگ، کچھ شہروں تک محدود تھی۔ اب ہر اس کمرے میں پہنچے گی جہاں ریڈیو موجود ہے۔”

اکہتر کی جنگ میں مظاہرے ہوئے، لاٹھی چلی، خون بہا، مگر یہ سب ایک مشرق سے دوسرے مغرب تک نہیں پہنچا۔

فروری 1952 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے فسادات کی خبر، لاہور کراچی، راولپنڈی پہنچی تو ہمارے بڑے بوڑھوں نے قومی مفاد کے مفلر سے منہ سر لپیٹ لئے۔  وہ دن ہے اور آج کا دن، ہمارے سر باقی نہیں رہے، البتہ مفلر، جوں کا توں ہے۔ ہم آج بھی قومی مفاد کو قوم کا مفاد نہیں چند لوگوں کا استحقاق سمجھتے ہیں جو اس کی رجسٹری، کسی اور کے نام ہونے بھی نہیں دیں گے۔

Dec 16, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).