اسلامی دعوت یا اسلامی ریاست – منزل ہے کہاں تیری؟


\"usman

برادرم عزیزم فیض اللہ خان مصرع خوب اٹھاتے ہیں، مگر جوش کی شدت میں طرح کو نظر انداز کر کے اکثر بحر ہزج کی جگہ بحر رمل میں کشتی (واضح ہو کہ یہاں کاف بالفتح ہے) لنگر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ اب ان کے تازہ مضمون کو ہی لے لیجئے۔ بھائی مہمیز ہوۓ ہیں ایک تصویر سے جس میں کوئی خاتون ’ملاؤں‘ کو دعوت مبارزت دے رہی ہیں۔ سچ یہی ہے کہ یہ تصویر اس سے پہلے ہماری نظر سے نہیں گزری تھی اور اگر برادرم فیض اللہ خان یہ مضمون نہ لکھتے تو ہمیں یہ بھی علم نہ ہو پاتا کہ ’ملاؤں‘ نے اس کے جواب میں ’سینہ بہ سینہ، شانہ بشانہ‘ مقابلے کی ٹھانی ہے۔ آج تک ہم سمجھتے آئے تھے کہ ’سینہ بہ سینہ‘ کا مطلب معلومات کو منہ زبانی آگے تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اور ’شانہ بہ شانہ‘ سے مراد متحد ہو کر کوئی کام کرنا ہوتا ہے۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ تحریر میں مذکور (اگر چہ نا معلوم) ملاؤں نے مقابلے کے بجائے زبانی مکالمے کا عندیہ دیا ہے اور اس کے نتیجے میں اتفاق رائے سے خواتین کے حقوق کی جد و جہد میں ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں گے۔ یہاں تک پڑھ کر ہماری نگاہوں میں قرون اولی کے وہ ایمان افروز مناظر دوڑ گئے جب بدوؤں کے ظالمانہ پدر سری سماج میں خواتین کو زبردستی کی شادی سے تحفظ، وراثت میں حصہ، گواہی کا صواب وغیرہ جیسے حقوق، جاہلیہ کے رواجات کے اصنام کو پاش پاش کر کے تفویض کیے جا رہے تھے۔سونا اٹھآئے، اکیلی خاتون کے صحرا میں بلا خوف سفر کو یقینی بنایا جا رہا تھا۔۔ علی هذا القیاس۔۔۔

مگر افسوس ۔۔ آئے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔ آگے پڑھا تو پتا چلا کہ مذکورہ محاوروں میں لسانی اجتہاد کر کے انہیں مکالمے اور تعاون کی کے بجائے محاربہ و مقاومہ کے طور پر برتا گیا۔ اس لسانی رجعت قہقری پر تو خیر اہل زبان ہی درست رائے دے پائیں گے، ہمیں برادرم فیض اللہ خان کے مضمون کے مندرجات میں سے کچھ پر بات کرنا ہے۔ ہمیں زیر نظر مضمون میں جو نکتہ سب سے بڑھ کر خوش آیا، وہ صاحب مضمون کا، ابتدا میں، غلبہ اسلام کے اصل طریقے یعنی ’دعوت‘ پر زور دینا ہے۔ یہ دیکھ کر بھی مسرت ہوئی کہ برادرم نے، کم از کم آغاز مضمون میں، اسلام اور مسلمانوں کے چند نادان دوستوں کی طرح اغیار کے اسلام پر بزور شمشیر پھیلائے جانے کے الزام کو تقویت نہیں دی، ورنہ خود ساختہ ’اسلامسٹ‘ دوست اکثر و بیشتر ’محبت کا بیاں ہو جا، اخوت کی زباں ہوجا‘ کے بر عکس ’کاٹ کر رکھ دیۓ کفار کے لشکر ہم نے‘ پر غرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

تحریر میں آگے چل کر کچھ سخن گسترانہ نکات در آئے ہیں جو یا تو زور بیان کا نتیجہ ہیں یا فکری خلجان کا۔۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ خاتون کی تصویر میں مذکور ’جنگ‘ کی ابتدا کس کی جانب سے ہوئی۔ صوبائی حکومت نے جن قبیح اور غیر اسلامی حرکات کے سد باب کے لئے جو مسودۂ قانون پیش کیا تھا، اس پر سنجیدہ بحث کے بجائے اس کے مویدین کو ازراہ تمسخر ’زن مرید‘ کا خطاب دینا، کسی عقلی و نقلی دلیل کا تکلف کیے بغیر اسے خلاف اسلام قرار دینا، یا اس کی حامی کسی خاتون کو فاحشہ قرار دینا مختلف درجوں میں اشتعال انگیزی کے زمرے میں آنے والے اقدامات ہیں۔ محترم مضمون نگار نے اس پیرایہ اظہار سے خفیف سی بیزاری کا اظہار ضرور کیا ہے مگر اس بد تمیزی کے آغاز کی ذمہ واری کے تعین کے بارے میں سکوت فرمایا ہے۔ اسی جگہ ’ملاؤں‘ کو ’اسلام‘ کا ہم معنی ٹھہرا کر سراسر سبقت قلم کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ہماری راۓ میں تو ملائی ذہنیت کے باب میں سب سے زیادہ سخت کلامی کلام اقبال میں پائی جاتی ہے جو ملا کے اسلام کو مذہب جمادات و نباتات کا مذہب، اس کا کام فی سبیل اللہ فساد اور اس کی اذان کو بے تاثیر قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام میں ’دعوت الی اللہ‘ ہر مسلمان مرد و زن کا کام ہے اور قرون اولی سے ملوکیت کے آغاز کے دور تک، ہمیں تاریخ اسلام میں اس کام کے لئے کسی مخصوص طبقے کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ چنانچہ ملا کو شعائر اسلامی کا تقدس عطا کرنا ایک بدعت سے زیادہ کچھ نہیں۔

کئی خود ساختہ ’اسلامسٹ‘ دوست دوسروں کی نیت اور دلوں کے حال پر حکم لگانے کے شائق پائے جاتے ہیں۔ بظاہر اس ’صحبت طالح‘ کا کچھ ناگوار اثر محترم مضمون نگار کی تحریر میں بھی در آیا ہے۔ فرماتے ہیں، ’آپ میں سے بیشتر کا پس منظر یا تو فرقہ ورانہ ہوگا یا پھر دین اسلام سے خدا واسطے کی چڑ رکھتے ہوں گے‘۔ اس ’ہو گا‘ کے بلا ثبوت گمان کی روشنی میں یہ فتوی بھی جڑ ڈالا کہ، ’ملا کی آڑ میں اسلام پہ طنز کے نشتر چلاتے ہیں‘۔ ہمیں تو اس کے بر عکس اکثر یہ تجربہ ہوا کہ کچھ دوست فرسودہ اور ظالمانہ پدر سری اقدار کو، جن کا دین حنیف کی اصل سے کوئی تعلق نہیں، تقدس کا لبادہ پہنا کر تجزیہ و تنقید سے ماورا بتانا چاہتے ہیں۔ ہم خدانخواستہ دلائل کی اس قدر اسفل سطح پر اترنے پر خود کو آمادہ کر پاتے تو ایسا گمان زبان قلم سے پھسل جاتا کہ عورت کے حقوق کی بازیابی سے خوف زدہ ہونا مردانہ کمزوری کے شعوری یا لا شعوری احساس کی پیداوار ہے، مگر ہم واضح ثبوتوں کی موجودگی میں بھی ایسا حکم اس لئے نہیں لگائیں گے کہ نیتوں اور دلوں کے حال کا محرم صرف اللہ کی ذات کو سمجھتے ہیں۔

خادم کی رائے میں سب سے سنگین فکری مغالطہ آخر میں در آیا ہے جس میں برادر عزیز نے دعوت کے ناقص ہونے کا سبب ’اسلامی ریاست‘ کی عدم موجودگی کو ٹھہرایا۔ ہے۔ بہ الفاظ دیگر، پہلے اسلامی ریاست قائم ہو گی پھر اس ریاست کے وسائل دعوت کے نقائص دور کرنے کے لئے استعمال کر کے دعوت کا حق ادا کیا جآئے گا۔ فی الوقت ’اسلامی ریاست‘ کی بدعت پر بحث سے صرف نظر کرتے ہوۓ اس خیال میں پنہاں تاریخی اور عملی اشکال کی جانب اشارہ مقصود ہے۔ جیسا کہ برادر عزیز نے خود اشارہ کیا، قرون اولی میں اسلام کی دعوت کو سب سے زیادہ اور کٹھن رکاوٹوں کا سامنا تھا، اور مسلمانوں کو ریاست تو درکنار، پناہ تک بمشکل میسر تھی۔ مگر قبول اسلام کے معجزاتی اور بہترین پھیلاؤ کا زمانہ بھی یہی ہے۔ نسبتا حال کی جانب آئیں تو دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی کے حامل خطے یعنی انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگا پور، مالدیپ اور برونائی وغیرہ میں کبھی مسلمان فاتحین نہیں پہنچے۔ اگر برادر عزیز کی بیان کردہ منطق درست ہوتی تو سب سے زیادہ اور سب سے راسخ العقیدہ مسلمان وہاں ہونے چاہییں جنہیں مسلمانوں نے فتح کیا۔ اعداد و شمار اور تاریخی حقائق اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ماضی قریب اور حال میں ’اسلامی ریاست‘ کے دعوے داروں نے انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے دنیا بھر میں اسلام کا جو تاثر پھیلایا ہے، اس کے تو ہم آپ عینی شاہد ہیں، اور ہر سلیم الطبع مسلمان اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہے ۔اہم تر بات یہ کہ برادر عزیز کا بیان کردہ کلیہ نہ نہ کرتے ہوۓ بھی بیان کو اسی دلدل میں لے جاتا ہے۔ جس سے وہ شروع میں دامن بچا رہے تھے، کہ جہاں فروغ اسلام ، زور شمشیر کا مرہون منت ٹھہرتا ہے۔

بطور تتمہ عرض ہے کہ خادم سواد اعظم کے علما کی اس رائے سے خود کو متفق پاتا ہے کہ اسلام کا بنیادی مخاطب فرد ہے اور فرد کا تزکیہ نفس، اور اس راہ سے، فکر آخرت اور فلاح دنیا کے امتزاج پر مشتمل سماج کا قیام، اس کا ہدف ہے۔ ریاست کی قوت قاہرہ زیادہ سے زیادہ اپنے زیر نگین افراد کو ظواہر کی پابندی پر مجبور کر سکتی ہے، ذہنی تطہیر اس کے بس کی بات نہیں، نہ ہی یہ اس کا میدان ہے۔۔۔ جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتح زمانہ۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments