ناقابل ِ بیان


پرانے بھوت نہاں خانوں سے باہر آتے ہوئے ہمیں اُسی جانی پہچانی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ ہم بطور ایک ملک اس قدر قطبی رویوں کا شکار ہیں کہ غیر جانبداری اور راستے کے درمیان میں چلنے کے آپشن ختم ہوچکے ہیں۔ کسی عوامی اہمیت کے معاملے پر معروضی انداز میں بات کرنے کی گنجائش نہیں بچی۔ سازش کی کھنچنے والی لکیر آپ کو اس مقام پر لا کھڑا کرے گی جہاں ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان کا اسکور بورڈ آباد ہوتا ہے۔ شہریوں کی آزادیوں کا تحفظ کرنے میں ریاست کی بے ہمتی کی بات کس طرح کی جائے ؟کس طرح پوچھا جائے کہ آخر کتنی قربانیوں کے بعد وہ مقام آئے گا جب ریاست کہہ اُٹھے گی کہ بس، اب نوجوان سپاہیوں کا نقصان ناقابل ِ قبول ہوگا؟کس طرح دلیل دی جائے کہ بڑھتا ہوا سول ملٹری عدم توازن جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے زہر ِقاتل ہے ۔ کیا یہ سوالات مقام ِ فکر ہیں یا سازش کی کتھا؟

2014 ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور سانحے کے بعد میں نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا ۔۔۔’’پشاور خونریزی جیسے ہولناک واقعات کے بعد دو میں سے ایک بات ہوسکتی ہے : پہلی یہ کہ یہ صدمہ دہشت گردی کے بارے میں ہماری سوچ اور طرز عمل کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کردے گا ، اور 16 دسمبر ہمارے شعور میں یہ بات راسخ کردے گا کہ آج کے بعد دہشت گردوں اور انتہاپسندوںکی ہمارے درمیان کوئی جگہ نہیں۔ یا پھر یہ ہوگا کہ ہم چند روز تک صدمے کی کیفیت میں رہیں گے اور انتقامی کارروائی کے طور پر چند ایک ہلاکتیںہمیں معمول کی زندگی کی طرف لے آئیں گی۔ ‘‘اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہم نے دوسرا طرزعمل اپنایا۔ انتہا پسندی کے خلاف کوئی جنگ نہیںکی۔ دہشت گردی کے واقعا ت میں ہونے والی کمی نے ہمیں مطمئن کردیا۔

اے پی ایس کے بعد ہمیں احسا س ہوا … ’چھوٹے تابوت اٹھانے میں بہت بھاری ہوتے ہیں۔‘‘وطن کے لئے جان دینے والے اکیس سالہ فوجیوں کے تابوت کتنے وزنی ہیں؟ ریاست کے لئے فرائض سرانجام دینے والے نوجوانوں، جن کے سامنے زندگی کے بھرپور امکانات موجود ہوتے ہیں، کے لئے جان قربان کرنا کیوں ضروری ہوچکا ہے؟ ریاست کو اس انداز میں کیوں چلایا جارہا ہے کہ اس کی نمو کے لئے خون کی ضرورت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی؟آرمی چیف کا کہنا ہے ۔۔۔’’آزادی مفت میں نہیں ملتی، اس کے لئے دھرتی کے بیٹوں کو قربانی دینا پڑتی ہے ۔ ہم جس آزادی سے لطف اندوز ہورہے ہیں، یہ ایسے بہت سے دلیرجوانوں کی مرہون منت ہے ۔ ہم اپنے شہدا کو سلام کرتے ہیں۔‘‘شہدااور اُن کے خاندانوں کا احسان کون بھول سکتا ہے ؟ لیکن ہماری 70 سالہ آزادی اپنی دھرتی کے بیٹوں کاخون لینے پر کیوں مصر ہے؟کیا اپنے ملک اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں؟

کیا ہم شہدا کی قربانیوں کی توہین کے مرتکب ہو ں گے اگر پوچھ بیٹھیں کہ کیا نیشنل سیکورٹی کے اہداف اس طرح حاصل نہیں کیے جاسکتے جس میں ایسی قربانیوں کی ضرورت کو کم کیا جاسکے ؟کیا ہم مقتدر ادارے کو ایک طرف کرتے ہوئے سیکورٹی پالیسی سازی کا محاسبہ کرسکتے ہیں؟ ایک ملک جس میں ہزاروں شہری اور سیکورٹی اہل کار مذہبی عدم برداشت، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، کیا ہم اپنے ناکام تصورات اورپالیسیوں کو ’’دستوں کے مورال‘‘ اور ’’شہدا کی قربانیوں‘‘ کے پیچھے چھپاتے رہیں؟کیا یہ پوچھنا غداری ہوگی کہ ریاست شہادتو ں کی ضرورت کو کم کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو بھرپور زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے کچھ کررہی ہے یا نہیں؟

اگر ہماری ریاست ہر شہری کی جان کا تحفظ ضروری نہیں سمجھتی تو پھر اس پر کیا شکوہ کہ یہ کم تر درجے کی آزادیوں ، جیسا کہ آزادی اظہار ، کی رکھوالی نہیں کرتی ؟ہماری ریاست نجی ملیشیا اور انتہا پسندوں کے دستوں کی طرف سے اپنی عملداری کو کھلا چیلنج کرنا خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتی ہے لیکن طے شدہ نیشنل سیکورٹی کے تصورات پر علمی اور فکری انداز میں معمولی اختلاف ِرائے کا بھی تحمل نہیں رکھتی ۔ اس خوف کی کیاوجہ ہے ؟ اگر نیشنل سیکورٹی کا قلعہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے تو تنقید کا جھونکا اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے ؟اور اگر خدشہ ہے کہ تنقید ی جائزہ اس کی دھجیاں بکھیر دے گاتو کیا اس پر نظر ِ ثانی کی ضرورت نہیں ؟’’کارکن ‘‘ کیوں گم ہوتے رہتے ہیں؟ رضا خا ن کون سے خطرناک خیالات کا پرچار کررہاتھا کہ وہ ایک ’خطرہ ‘ قرار پایا؟زینت شہزادی سے کون سا جرم سرزد ہوا تھا؟بلاگرز کون سے مذموم ایجنڈے پر کام کررہے تھے ؟ہماری ریاست میں عوام کو گم کرنے کے رجحان کونائن الیون کے بعد فروغ ملا۔ پہلے پہل یہ جواز تراشا گیا کہ اس نئی قسم کی جنگ میں اس کی ضرورت ہے۔ کہا گیا کہ کچھ شہری اپنی ہی ریاست کے دشمن ہیں۔ بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لئے قانونی چھتری موجود نہیں۔ چنانچہ فوجی آپریشنز کے دوران گرفتار ہونے والوں کو رکھنے کے لئے خفیہ حراستی مراکز قائم ہوئے ۔ چونکہ قانون ایسے مراکز کی اجازت نہیں دیتا، اس لئے ریاست نہیں جانتی کہ ایسے افرادکے ساتھ کیا کیا جائے ۔

فوجی آپریشن کے دورا ن جنگی حکمت ِعملی کی بات کریمنل جسٹس تک چل نکلی۔ ہم نے مختلف قوانین کا نفاذ دیکھا ، جیسا کہ پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ، فیئرٹرائل ایکٹ، ترمیم شدہ اینٹی ٹیررسٹ ایکٹ، اورپھر فوجی عدالتوں کی تخلیق۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ فوج قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے دہشت گردوں کو سزا دے سکے ۔ وہ قوانین جو سویلین کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی اجازت دیتے ہیں، وہ بنیادی انسانی حقوق کے معیار پر پورے نہیں اترتے ، لیکن اُن کا جواز اس طرح پیش کیا جاتا ہے غیر معمولی وقتوں میں لیگل فریم ورک میں تبدیلی اور لچک پیدا کرنا بہتر ہے ، بجائے اس کے کہ سیکورٹی ایجنسیاں قانون قانون کی خلاف ورزی کریں۔
چنانچہ اب ہمارے پاس قوانین ہیں اورسیکورٹی ایجنسیوں کو گرفتارکرنے، حراست میں رکھنے ،تحقیقات کرنے ، عدالت کے سامنے پیش کرنے اور سزادلانے کے اختیارات حاصل ہیں۔ تو پھر جن پر ’’ریاست مخالف ‘‘سرگرمیوں کے الزامات ہیں وہ ابھی تک گم شدہ کیوں ہیں؟ قانون کے مطابق مقدمہ چلاکر اُنہیں سزا کیوں نہیں دی جاتی ؟ایسا لگتا ہے کہ اب حب الوطنی کے ساتھ ساتھ توہین کے الزامات کی زد میں آنے والے بھی غائب ہورہے ہیں۔ اب گم شدہ افراد صرف وہی نہیں جو عملی طور پر ہتھیار اٹھا کر ریاست کے خلاف لڑرہے تھے ، بلکہ اب فکری اختلاف رکھنے والے بھی غائب ہوں گے ۔ یہ چیز قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور جمہوریت کے لئے ایک بری خبر ہے ۔ اس وقت ریاست کسی بھی ایشوپر بیانیہ تشکیل دینے اور آگے بڑھانے پر قادر ہے ۔ تاہم ایسے افراد کو غائب کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ طاقت ور حلقوں نے فیصلہ کررکھا ہے کہ اس ملک کو تصورات کی مارکیٹ بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہاں شہریوںکو قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کا حقدار نہیں سمجھا جاتا، حالانکہ ریاست ان حقوق کو نہ تو معطل کرسکتی ہے اور نہ چھین سکتی ہے ، تاوقتیکہ قانو ن اس کی اجازت دے ۔ یہ کوئی ایسی عطا نہیں جو ریاست خوش ہوکر مہربانی کرتے ہوئے شہریوں کو مرحمت کرتی ہے ۔قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کی پاسداری شہریوں اور ریاست کے درمیان لکھے گئے عمرانی معاہدے کا حصہ ہیں۔

ہمارے طاقت ور حلقے سمجھتے ہیںکہ اگر جمہوریت کو کنٹرول میں رکھا جائے تو اسے عوام کو دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے ہاں لفظ ’’سیاست ‘‘ سے مراد چالبازی اور اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنا کام نکالنا لیا جاتا ہے ۔ اس وقت جبکہ 2018 ء کے انتخابات کا طبل بجا چاہتا ہے ، ہمارے تعلیم یافتہ ڈرائنگ روم حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا ہم جمہوریت کے لئے موزوں ہیں یا نہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے زون میں موجود ہیں جہاں کوئی طاقت ور کچھ وقت کے لئے ہمیں جمہوریت نما کھلونا کھیلنے کے لئے دے دیتا ہے ۔ اس کے بعد اپنی مرضی سے واپس لے لیتا ہے ۔

اس وقت دکھاوے کا دور ختم ہوچکا ہے ۔ حقائق کھل رہے ہیں۔ ہم نے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان رشتہ کرانے کی کوشش دیکھی۔ سویلین حکومت اپنے طور پر افغانستان، ایران اور سعودی عرب کے ایشوز کو طے نہیں کرسکتی جب تک اس میں اسٹیبلشمنٹ نہ شامل ہو۔ فیض آباد دھرنے کے دوران وزیر اعظم کو آرمی چیف کی طرف صائب مشورہ دیا گیا۔ فسادیوں کو پاکٹ منی دے کر رخصت کیا گیا۔ مزید کتنی غلط فہمیاں دور ہونا باقی ہیں؟ہم ایک دلدل سے نکل کر دوسری میں جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ اسی کا نام تبدیلی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar