کریں تو کیا کریں


نائن الیون کے بعدآنے والی ایک فون کال پر جنرل مشرف نے اس ملک کی تمام تر سوچ کا رخ اچانک موڑ دیا۔ اس ملک کی خارجہ پالیسی ، داخلہ، سماجیات اور معاشیات نے اچانک ایک حیران کن موڑ موڑا۔ یہ تبدیلی اسی طرح تھی جس طرح موٹر وے پر کوئی 120کی اسپیڈپر گاڑی چلاتے اچانک گاڑی کو ریورس میں ڈالے اور اسی رفتار سے گاڑی کو الٹا بھگانا شروع کر دے۔ جن پالیسوں کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں یہ جنرل ضیا کی پالیسیاں ہیں۔ جنرل مشرف کی پالیسیوں کا خمیازہ ابھی آنے والی کئی نسلوں کو بھگتناپڑے گا۔ ایک فون کال سے ہم نے اس ملک میں دہائیوں تک موجود رہنے والی سوچ، ثقافت، تمدن اور سماجی اقدار کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اچانک برسوں پرانے دوست دشمن ہو گئے۔ وفادار غدار کہلانے لگے۔ مدارس تخریب کا منبع بن گئے۔ جہادی دہشت گرد کہلانے لگے۔ اپنے لوگ پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے ہونے لگے۔ جنرل مشرف نے قوم کی گاڑی کو تو ریورس گیئر میں ڈال دیا لیکن یہ بات بھول گئے کہ تیز رفتاری سے الٹی گاڑی چلانے کا نتیجہ حادثہ ہو تا ہے۔ وہ حادثہ اس مملکت کے ساتھ ہو چکا ہے اور ہمیں اس کا ادراک بھی نہیں ہے۔ہم ناکامی کی جس نہج کی جانب بڑھ رہے ہیں وہ ہماری سوچ کے دائرے میں فی الحال سما بھی نہیں سکتی۔

جن لوگوں کی ہم نے دہائیوں پرورش کی انہی لوگوں کے خلاف جب آپریشن ہوئے، ڈرون ان کے سروں پر برسنے لگے تو انکا جہاد ہمارے اپنے خلاف شروع ہو گیا۔ ہر روز بم دھماکے ہونے لگے۔ معصوم شہری مارے جانے لگے۔ معتدل سوچ رکھنے والے معاشرے کے سب سے بڑے مجرم ہوگئے۔امن کی بات کرنے والے غدار کہلانے لگے۔ اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے والے کافر قرار دئیے جانے لگے۔اس سارے سماج نے ایک قلابازی کھائی اور ہمیں ہر چیزا لٹ دکھائی دینے لگی۔ متوازن سوچ معاشرے سے مفقود ہونے لگی اور شدت پسندی ایک نئے روپ سے ہم کو جکڑنے لگی۔

المیہ تو یہ ہے کہ ہم اتنے بدل گئے ہیں کہ اب ہمیں اپنے بدلنے کا گمان تک نہیں ہو رہا۔ اب ہم تواز ن کی کیفیت اس حد تک کھو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ناہمواریوں کا احساس بھی نہیں ہو رہا۔ طاہر القادری سے لے کر خادم رضوی تک ایک نیا پاکستان تخلیق ہو چکا ہے۔ اور اب اس مملکت خداداد میں توازن کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ستانوے فیصد مسلم آبادی والے ملک میںمذہب کے نام پر جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہے۔اب مسئلہ مذہب کا نہیں رہا اب جنگ فرقوں کی بن چکی ہے۔ پہلے ہم فرنگیوں کے خلاف جنگوں پر فخر کرتے تھے، پھر یہ تفاخر ہندو بنیوں تک جا پہنچا اور اب یہ تفریق فرقوں کی بنیاد پر ہوگئی ہے۔اب ہر شخص کفر کے فتوے سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ہر شخص کے ایمان پر شک کیا جا سکتا ہے۔ ہر شخص مرتد کہلا سکتا ہے۔ ہر کسی سے اسکے ایمان کا سربازار امتحان لیا جا سکتا ہے۔مذہب توازن کا پیغام دیتا ہے۔ شدت سے اجتناب سکھاتا ہے۔ نفرت کی مناہی کرتا ہے۔ امن کا درس دیتا ہے۔ آشتی کا سبق سکھاتا ہے۔ عفو ودرگزر کی تبلیغ کرتا ہے۔ معاف کرنے کو مستحسن سمجھتا ہے۔ رحیم اور کریم کی صفات بتاتا ہے۔ علم اور دانش کی طرف رجوع سکھاتا ہے۔ تحقیق اور تشکیک کی طرف توجہ دلاتا ہے ۔ خواتین کا احترام سکھاتا ہے۔ معذور افراد کے حقوق بتاتا ہے۔بچوں سے شفقت بتاتا ہے۔

انسانوں کی حرمت کا یقین دلاتا ہے۔اقلیتوں کے حقوق کی تہذیب سکھاتا ہے۔ ہمارا لمیہ یہ ہے کہ ہم نے سب باتوں کو پس پشت ڈال کر صرف دوسروں کے ایمان کے امتحان کو مذہب سمجھ لیا ہے۔ دوسرے کی ذات میں کیڑے نکالنے کو اپنے ایمان کی مضبوطی مان لیا ہے۔محبت کے درس کوبھلا کر ہم نے نفرتوں کا سبق ذہنوں میں ڈال دیا ہے اور قبیح فعل کے لئے ہم نے مذہب کو استعمال کیا ہے۔ مبارک ہستیوں کا نام لیا ہے۔ یہ نفرت ، یہ شدت دراصل ردعمل ہے اس یو ٹرن کا جو جنرل مشرف نے ایک فون کال پر لیا تھا۔اب ہم اتنے شدت پسند ہو گئے ہیں کہ گردن زنی ہماری سوچ بن گئی ہے۔اس سوچ کا اب کوئی حل سامنے نہیں آ رہا۔ اب یہ معاملہ کم نہیں ہو سکتا اب بات صرف بڑھ سکتی ہے۔

جب ریاست ایسے شدت پسند عناصر کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ جب حکومت ایسے عناصر سے خوفزدہ رہنے لگے۔ جب صاحب علم زبان کھولنے سے ڈرنے لگے، جب استاد کو اپنی دستار کی فکر ہونے لگے۔جب شاعر ادیب خوفزدہ رہنے لگیں، جب اہل دانش چپ سادھ لیں تو یہ ناکامی صرف ایک فرد کی نہیں رہتی ۔ اس کا الزام ہم ایک حکومت کو نہیں دے سکتے۔ یہ پورے سماج کی شکست ہوتی ہے۔ یہ پورے عہد کی شکست بنتی ہے۔ یہ ساری ریاست کی شکست کہلاتی ہے۔

مجھے خوش گمان رہنا پسند ہے ۔ لیکن اب ساری خوش گمانی ہوا ہوتی جا رہی ہے۔ اب مسئلے کا کوئی حل سجھائی نہیں دے درہا۔ اب گاڑی گزر چکی ہے اور پٹری چمک رہی ہے۔حکومت کی ناکامی کا اب گلہ نہیں ہے اب ریاست کی بنیاد خطرے میں پڑ گئی ہے۔اب مسئلہ نواز شریف ، زرداری اور عمران خان کا نہیں ہے۔ اب بات بہت بگڑ چکی ہے۔اب مستقبل کا نقشہ دھندلا ہے۔اب ہمارے سامنے صرف ایک تابناک ماضی ہے۔

بہت سوچتا ہوں کہ کیا ہو گا تو ہزار فکریں دامن گیر ہو جاتی ہیں۔ اس دفعہ شاید الیکشن سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوجائے ۔ اگلا الیکشن کہیں فرقہ واریت کی بنیاد پر نہ ہو جائے۔ ایک فرقے کی دوسرے فرقے کو گالی دینا ہی انتخابی نعرہ نہ بن جائے۔ ووٹرز لسٹوں پر ایمان کا امتحان نہ ہونے لگ جائے۔ مذہبی تفریق اس حد تک نہ بڑھ جائے کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے کے خون کا پیاسا ہو جائے۔نفرت کہیں اس شدت سے نہ در آئے کہ کچھ بھی نہ بچ پائے۔ جو کھیل شروع کیا گیا تھااب اس کے اختتام کا منظر شاید ہم سے نہ دیکھا جائے۔

اس ملک کےظالم ڈکٹیٹروں کی پالیسیاں ہمیں اس مقام پر لے آئی ہیں کہ اب نہ کچھ بولا جا سکتا ہے نہ چپ رہا جا سکتا ہے۔اب نہ اس شدت کا حصہ بنا جاسکتا ہے نہ اس سے چھٹکارا ممکن نظر آتا ہے۔ اب نہ نفرت کی جا سکتی ہے نہ محبت کا پرچار ممکن ہے۔آخر اب کریں تو کیا کریں۔اب بہت سوچ بچار کے بعد ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ سیاست اور مذہب کو الگ کیا جائے۔ تمام سیاسی پارٹیاں متفقہ طور پر سیاست میں مذہب سے اجتناب کی پالیسی اپنا ئیں۔ مذہبی جماعتوں کے کام مختلف ہونے چاہئیں۔ سیاسی جماعتوں کے افعال مختلف ہونے چاہئیں۔ اس مسئلے پر قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ ہر طبقہ فکر سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ مشترکہ ہونا چاہیے۔ اس کا مقصد کسی سیاسی جماعت کو فوقیت یا کسی کی نفی نہیں ہونا چاہئے۔ ریاست کی بقا اور تابندگی کے لئے یہ قومی فیصلہ درکار ہے۔کھلے دل اور روشن دماغ کے ساتھ کیا گیا مشترکہ فیصلہ ہی مستقبل کی کوئی نوید سنا سکتا ہے۔ وگرنہ موجودہ صورت حال تو صرف آنے والے دنوں کی تاریکی کی غمازی کرتی ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar