واپسی کے سفر کے منتشر خیالات


اب واپسی کا سفر شروع ہے گزشتہ چند ہفتوں سے میں کینیڈا اور امریکہ کے درمیان سفر کرتا رہا۔ امریکہ میں پاکستانی نامعلوم سی تشویش کا شکار ہیں۔ بظاہر تو حالات ٹھیک ہی نظر آتے ہیں مگر کچھ نہ کچھ ان کو پریشان رکھتا ہے۔ جب لوگ مجھ سے پوچھتے کہ میں کہاں سے ہوں۔ پہلا جواب تو پاکستان ہی ہوتا جس سے اکثر تسلی نہ ہوتی۔ خیر دوسرا سوال پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ تقریباً ہر تارک وطن پاکستان کے حالات کے بارے میں بھی تشویش اور فکر میں مبتلا ہے۔ میڈیا کی ترقی نے فاصلوں میں کمی ضرور کی ہے۔ مگر فاصلے اور دوری اب لوگوں کے مقدر کا حصہ ہیں۔ امریکہ میں اب جو پاکستانی ہیں ان کی دوسری نسل یا پیڑھی اب نوجوان ہے۔ ان کے حالات بہتر ہیں ان کو پاکستان کی خبر ضرور ہے مگر وہ فکر نہیں کرتے سو ان کی زندگی آسانی سے گزر رہی ہے۔

ہمارے پڑھے لکھے نوجوان پاکستانی کینیڈا کے طول و عرض میں اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ سب ایک آزاد مقابلہ کی فضا میں اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ کینیڈا میں اگلے سال الیکشن ہونے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں سیاسی جماعتیں حرکت پذیر ہیں۔ اس دفعہ کی سرگرمیوں میں امریکی سرمایہ کاری بھی بڑی اہم ہے۔ بہت سارے امریکی سرمایہ کار بڑے پیمانے پر کینیڈا میں کاروبار کے لئے پیسہ لگاتے نظر آرہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کا کردار کینیڈا کے عام لوگوں کے لئے بڑا دلچسپ ہے امریکی صدرنے اگرچہ کینیڈا کے ساتھ تجارت اور سیاست پر زیادہ بات نہیں کی مگر کینیڈا کی ٹروڈو سرکار (کینیڈا کے لبرل وزیراعظم ٹروڈو) امریکی صدر کے حالیہ اقدامات پر زیادہ تبصرہ نہیں کرتے۔ پھر کینیڈا عالمی سیاست میں غیر جانبداری کی کوشش کرتا ہے اور کسی حد تک کامیاب ہے۔ امریکی صدر کا اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کا معاملہ یک طرفہ سا ہے۔ ان کے آپس کے عالمی معاہدوں میں بگاڑ نظر آرہا ہے۔ بظاہر توامریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں رائے عامہ اتنی اچھی نہیں ہے۔ مگر ان ملکوں کی جمہوریت میں بھی رائے عامہ کو انتخابات کے بعد اہمیت نہیں دی جاتی۔

کینیڈا میں امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں کارٹون اور لطیفے میڈیا پر بہت ہی پسند کئے جاتے ہیں اور لوگ ان کو امریکی صدر سے زیادہ ایک بھانڈ کے طور پر پسند کرتے ہیں۔ اب بھانڈ کا انگریزی ترجمہ تو میرے دماغ میں نہیں ہے۔ مگر ہمارے ملک میں بھانڈ ہمارے معاشرے کا اہم کردار رہا ہے۔شادی بیاہ کے موقعوں پر ان کی دلچسپ باتوں سے لوگ بہت مزا لیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ہمارے سیاسی نیتائوں نے بھانڈوں کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ بھانڈ جو زبان استعمال کرتے تھے اور لوگ اس کو پسند بھی کرتے تھے۔ وہ ہی زبان اب ہماری سیاسی اشرافیہ استعمال کرتی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ہماری سیاسی اشرافیہ کی معاشرے میں وقار کی کمی واضح طور پر نظر آتی ہے اور ان کی زبان اور کردار نے سیاسی ماحول کو بہت ہی گرما دیا ہے۔

بھانڈ یا میراثی طربیہ اور تنقیدی اسلوب سے لوگوں پر تبصرہ کرتے ہیں مگر ہماری سیاست کے شریک کار اس اسلوب سے بدگمانی کا پرچار کرتے ہیں اور زیب داستان میں سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ ایسے ہوتی ہے کہ ان کا اپنا اعتبار مشکوک نظر آتا ہے۔
ابھی حالیہ دنوں میں بھارتی کرکٹ کی اہم شخصیت ویرات کوہلی کی شادی کا تذکرہ ہمارے ہاں بہت ہی ہوتا رہا ہے ویرات کوہلی نے بھارتی فلمی ہیروئن انوشکا شرما سے شادی کی تقریب بیرون ملک کی ہے۔ پاکستان کے سیاسی لوگ اس پر کیسے تبصرہ کرسکتے ہیں وہ ایک اندازہ سا ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ میڈیا اس گرما گرمی کے سیاسی ماحول کو اشرافیہ کڑ رائے سے دلچسپ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔اب ذرا ان تبصروں پر بات کرتے ہیں جو فرضی ہیں۔ مگر ان میں انداز فکر بہت ہی دلچسپ سا ہے۔
اگر ہم سینئر صحافی سلیم صافی سے ویرات کوہلی کی شادی پر ایک جملہ میں تبصرہ کرنے کی درخواست کریں تو وہ کیسا کرسکتے ہیں۔
’’شادی کی تقریب کے بعد لگ رہا تھا انوشکا نے ویرات کو نااہل قرار دے دیا ہے‘‘۔
اگر یہ سوال سابق وزیراعظم جناب نوازشریف سے پوچھا جاتا تو وہ شاید یہ کہتے۔

’’انوشکا شرما ویرات کوہلی کو بڑی اننگ کھیلنے کا موقع دے گی‘‘۔جب یہ ہی بات سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت سے پوچھی جائے تو انہوں نے اپنا مشہور زمانہ جملہ کئی دفعہ دہرایا۔ ’’مٹی پائو مٹی پائو اور جو مزید کہا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکا‘‘۔
اور جب جناب کپتان عمران خان سے تبصرہ کی درخواست کی تو ان کا کیا کہنا ہوسکتا ہے۔
’’ویرات کوہلی بہت ہی سمجھدار کھلاڑی ہے۔ انوشکا شرما اس کو مشکل وقت دے سکتی ہے۔ میدان اچھا ہے اور کھیل ذرا مشکل بھی ہوسکتا ہے‘‘۔

جب صحافت کے اہم نجومی اور تبصرہ نگار جناب شاہد مسعود سے اس شادی پر تبصرہ کی درخواست کی گئی تو وہ حیران سے ہوئے اور ان کی بات کچھ اس طرح کی ہوسکتی تھی ’’میں نے دو سال پہلے ویرات کوہلی اور انوشکا شرما کے بارے میں بتا دیا تھا کہ یہ لوگ شادی کا سوچ سکتے ہیں اور آج یہ سب کچھ سب کے سامنے ہونے جارہا ہے اور بڑی دھبردھوس قسم کی شادی کی تقریب ہوگی‘‘۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ہمارا میڈیا آج کل کتنا سنجیدہ ہے اور جب میڈیا نے مجھ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ پاکستان میں کیا ہوسکتا ہے تو مجھے خوشی ہوئی کہ میڈیا اپنی پہچان کروا رہا ہے۔ میں نے بتایا کہ جو مجھے نظرآتا ہے۔ ’’نواز لیگ کی سرکار اگلے چند دنوں میں قبل از وقت انتخابات کے سلسلہ میں اعلان کرنے والی ہے اور ایک جزوقتی سرکار کے قیام پر غور ہورہا ہے اور انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ہماری عدلیہ کا کردار بہت ہی اہم ہوگا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف بھی انتخابات کے حق میں نہیں اس وقت کے انتخابات ان کے بارے میں رائے عامہ مشکوک رکھتے ہیں اور صرف وقت پر انتخابات کا فائدہ کپتان عمران خان کو ہوسکتا ہے۔ سابق صدر زرداری سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے ساتھ مل کر ایک اور این آر او پر تیار ہو جائینگے اور انتخابات کا کھیل شروع ہوگا۔

واپسی کے سفر کے منتشر خیالات بس کچھ ایسے ہی تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).