فاٹا اصلاحات کا مسئلہ سیاسی نہیں نفسیاتی ہے


ان دنوں کوئی بھی ہما شما مسلم لیگ نون کی حکومت میں جہاں بہت سی برائیاں گنوا سکتا ہے۔ وہیں خوبیاں بھی کچھ کم نہیں۔ سناٹے یا معمول کی زندگی میں لیگی حکومت کا دل نہیں لگتا۔ اگر آسمان بالکل صاف ہو اور دور دور تک بحرانی بادل کا ٹکڑا تک نہ ہو تو لیگی حکومت کا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ پھر وہ اچانک کہیں سے کوئی کلہاڑی نکالتی ہے اور اپنے یا دوسرے کے پاؤں پر دے مارتی ہے۔ ہر طرف ہاؤ ہو کا تلاطم برپا ہو جاتا ہے، سناٹا ٹوٹ جاتا ہے اور پھر دل بستگی کا کوئی سامان سج جاتا ہے۔

اگر پاناما پیپرز پر پارلیمانی جماعتوں کی سفارش پر کوئی کمیٹی بن جاتی اور عدالت کو زحمت نہ دی جاتی تو مسئلہ تو حل ہو جاتا مگر زندگی کا لطف جاتا رہتا۔ چنانچہ ٹال مٹول کے ذریعے ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ ان سے وہ حالات پیدا ہو گئے کہ جن سے نون لیگ کی قیادت ان دنوں جرعہ جرعہ شراب ِاذیت کشید کر کے اپنے خشک ہونٹ گیلے کر رہی  ہے اور سب کی توجہ کا مرکز ہے۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمی چلی گئی مگر خود اذیتی کا نشہ اپنی جگہ برقرار۔ خود ستمی کا تازہ ثبوت فاٹا اصلاحات کا معاملہ ہے۔

دو ہزار چودہ میں اگر فاٹا اصلاحات پر سرتاج عزیز کمیٹی نہ بھی بنتی تو کسی نے نون لیگ کا گریبان نہیں پکڑنا تھا۔ مگر نہیں صاحب کمیٹی بنی اور اس نے زبردست سفارشات پیش کیں۔ سو برس سے بھی پرانے ایف سی آر (فرنٹئر کرائمز ریگولیشنز) کو رواج ایکٹ سے بدلنے کی تجویز پیش کی گئی (حالانکہ رواج ایکٹ اور ایف سی آر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کوک اور پیپسی کے ذائقے میں ہے۔ پھر بھی کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا غنیمت ہے)۔

یہ تجویز پیش کی گئی کہ یا تو فاٹا ایجنسیوں میں اصلاحات لائی جائیں مگر انھیں وفاق کے زیرِ انتظام ہی رکھا جائے یا ایجنسیوں پر مشتمل نیا صوبہ بنا دیا جائے یا فاٹا کو باضابطہ طور پر خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا جائے۔ آخری تجویز نے بظاہر قبولیتِ عامہ پائی کیونکہ عملاً  فاٹا کی معیشت اور سماجی ناطہ بہت عرصے سے خیبر پختون خوا سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔

دوکے علاوہ تمام متعلقہ قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں (بشمول مسلم لیگ ن) نے فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے، صوبائی اسمبلی میں نمایندگی دینے، پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں فاٹا کو لا کر ایف سی آر کے تحت وکیل، دلیل اور اپیل کا غصب شدہ بنیادی انسانی و انصافی حق بحال کرنے، این ایف سی ایوارڈ میں فاٹا کا تین فیصد حصہ مختص کرنے سمیت متعدد اصلاحات کی حمایت کی۔ فاٹا کے پارلیمانی ارکان کی اکثریت نے بھی علاقہ غیر کو پاکستان کے دیگر حصوں کے ہم پلہ لانے کے منصوبے کا پرزور خیر مقدم کیا۔

سرتاج عزیز کمیشن کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد کی مدت پانچ برس رکھی گئی۔ مگر خیبر پختون خوا حکومت، اسمبلی اور فاٹا کے امور سے دلچسپی رکھنے والے متعدد صاحب الرائے تجربہ کاروں کا خیال تھا کہ چونکہ فاٹا کا سماج  پہلے ہی سے بہت حد تک صوبے کے بندوبستی علاقے سے جڑا ہوا ہے لہذا پانچ برس کے بجائے یہی کام باآسانی ایک برس کی مدت میں بھی ہو سکتا ہے۔

یہ تجویز بھی اہم تھی کہ فاٹا میں اندرونی نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے بیس ہزار جوانوں پر مشتمل لیویز فورس تشکیل دی جائے۔ اس بابت خیبر پختون خوا کی دلیل یہ رہی ہے کہ اگر قبائیلی علاقے کو بالاخرصوبے میں ہی ضم ہونا ہے تو پھر الگ سے لیویز کھڑی کرنے کے بجائے صوبائی پولیس میں ہی بیس ہزار قبائلیوں کو بھرتی کر لیا جائے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ فوج بھی ان اصلاحات کی پرزور حمائیتی ہے تاکہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کے بعد اسے ’’پوسٹ آپریٹو کئیر‘‘ کا جو اضافی کام کرنا پڑ رہا ہے اس کام بوجھ بانٹا جا سکے۔

مگر فارمولا بھلے کتنا ہی سیدھا سہج ہو اور اسے بھلے کتنی بھی وسیع تر حمایت حاصل ہو اگر بلا کسی اڑچن کے اس پر عمل درآمد ہو جائے تو پھر جینے کا کیا مزہ۔

چنانچہ جب حکومت کے اپنے ہی بنائے ہوئے کمیشن کی سفارشات اس برس کے شروع میں نواز شریف کابینہ میں پیش ہوئیں تو فاٹا اصلاحات کی ہنڈیا کے نیچے آنچ تیز ہونی شروع ہو گئی۔

ٹوٹ بٹوٹ (میاں صاحب) نے کھیر چڑھائی، خالہ (مولانا فضل الرحمان) اس کی لکڑی لائی، پھوپھی (محمود اچکزئی)لائی دیا سلائی، امی جان (فاٹا بیوروکریسی) نے آگ جلائی۔ یوں کھیر پیندے سے لگ گئی۔ جب تشفی بخش گالیاں پڑ گئیں تب کہیں جا کر کابینہ نے فاٹا اصلاحات کی منظوری دی مگر ساتھ میں ’’مین اسٹریمنگ‘‘ کی دمچی بھی باندھ دی۔

ڈکشنری کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مین اسٹریمنگ کا مطلب ہے ’’مرکزی دھارے میں لانا‘‘۔ مرکزی دھارے میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام بنیادی حقوق اور بنیادی آئینی اداروں میں اس خطے کو شامل کیا جائے جسے مرکزی دھارے میں لانا مقصود ہے۔ مگر نون لیگ کے دو سیاسی اتحادیوں نے فرمائش کی کہ پہلے فاٹا کو مرکزی دھارے میں لایا جائے پھر آئینی اداروں اور حقوق کے دائرے میں لایا جائے۔ یعنی گھوڑے کو گاڑی میں جوتنے سے پہلے گاڑی کو گھوڑے میں جوتا جائے۔

یوں انوکھے لاڈلوں کی چاند سے کھیلن کی فرمائش کے طفیل فاٹا اصلاحاتی بل وفاقی کابینہ نے تو جیسے کیسے دودھ میں مینگیناں ڈال کر منظور کر لیا۔ اب مرحلہ اسے پارلیمنٹ سے منظور کروا کے ایکٹ بنوانے کا تھا۔ اس سے پہلے کہ حکومت اور اس کے حواری کوئی اور ٹالم ٹالی سبیل نکالتے کرنا خدا کا یوں ہوا کہ پاناما پیپرز نازل ہو گئے۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا اور یہ جواز ہاتھ آ گیا کہ تجھے فاٹا کی سوجھی ہے ہم بیزار بیٹھے ہیں، پہلے پاناما سے نمٹوں کہ فاٹا دیکھوں۔ اور پھر بلی ہی چھینکے میں پھنس گئی۔

میاں صاحب فراغت پا گئے اور ان کی جگہ خلافتِ عباسیہ آ گئی۔ وزیرِ اعظم تبدیل ہونے کے باوجود آ بیل مجھے مار کی خوئے خود اذیتی جوں کی توں رہی۔ چنانچہ گزشتہ سے پیوستہ ہفتے میں وفاقی وزیرِ قبائلیات عبدالقادر بلوچ نے جانے کس پینک میں اعلان کر دیا کہ آنے والے سوموار کو حکومت فاٹا اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرے گی تا کہ ظالم ایف سی آر سے جان چھوٹ جائے۔ یہ سننا تھا کہ سب کی ایک بار پھر امید بندھ گئی اور سب نے کہا کہ یہ عقلمندانہ فیصلہ ہے (سوائے ان دو سیاسی حلیفوں کے جو مسلسل چلمن سے لگے بیٹھے ہیں)۔ جب سب مطمئن ہو گئے تو پیر کی صبح جو ایجنڈا سامنے آیا اس میں سے فاٹا کا بل غائب تھا۔ ظاہر ہے دشنام طرازی اور مسلم لیگ ن پر کیچڑ اچھالی شروع ہوگئی۔ یوں نونی حکومت نے ایک ہی بل سے دوسری بار خود اذیتی کا آنند لے لیا۔

اب حکومت حزبِ اختلاف سے کہہ رہی ہے کہ گاجریں تو ختم ہو گئیں ٹنڈہ لے لو، کھیرا لے لو، مولی لے لو۔ مگر حزبِ اختلاف کے پاس برسانے کے لیے خود نون لیگ کا پہلے سے مہیا کردہ اسٹاک ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

جو جماعت نواز شریف کے عدالتی نااہلی کا شکار بننے کے باوجود الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ میں خرگوش کی رفتار سے ترمیم کر کے قیادتی راستہ سیدھا کر سکتی ہے اسی جماعت نے فاٹا اصلاحات کے معاملے کو پچھلے تین برس سے کچھوے کی پیٹھ پر لاد رکھا ہے۔ معاملہ نہ سیاسی ہے نہ قانونی۔ ن لیگ کے لیے یہ معاملہ نفسیاتی ہے۔ شائستگی اجازت نہیں دیتی کہ میں سو جوتے سو پیاز والا محاورہ استعمال کروں البتہ یہ تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ……

ہے تقاضا میری طبیعت کا

ہر کسی کو چراغ پا کیجے

رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب

خون تھوکوں تو واہ واہ کیجے (جون ایلیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).