ہم کہ ہر بات پہ تلوار اٹھا لیتے ہیں


فکرِ یکڑی پر گزشتہ دو کالموں کو اتنی پذیرائی ملی، جتنی ترقی یافتہ ممالک کے ایئرپورٹس پر ایک سبز پاسپورٹ کو حاصل ہوتی ہے۔ سو، آج ہم بابا یکڑی کی تنگ نظری اور ہٹ دھرمی وغیرہ کا حوالہ دے کر کوئی بات نہیں کریں گے۔ ویسے بھی تاریک دور کے ایک اَن پڑھ اور اَن گھڑ جاٹ اور ڈیجیٹل عہد کے ہم مہذب لوگوں کا تقابل معیوب سا لگتا ہے۔

بصد معذرت عرض ہے کہ ہماری خواہشات بھی بے مثال ہیں، ترجیحات بھی لا جواب۔ خوابوں کا بھی جواب نہیں، آرزوئیں بھی لاثانی۔ شوق بھی عجب ہیں، مہمات بھی منفرد۔ خوشیاں بھی جدا ہیں، غم بھی الگ۔ رویوں کا بھی مول نہیں، اطوار کا بھی کیا کہنا… ہر بندہ مقدور بھر بد دیانت ہے مگر دوسروں سے دیانتداری کی توقع رکھتا ہے۔ ذخیرہ اندوز سے جب سرکاری دفتر میں رشوت طلب کی جاتی ہے تو وہ تاسف سے کہتا ہے ”آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟‘‘ رشوت خور کو اگر کوئی ذمہ دار پکڑتا ہے تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے ایک جانور کا نام لے کر کہتا ہے کہ وہ چَک پا گیا ہے۔ ٹریفک قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے جب کوئی اپنی گاڑی رواں ٹریفک میں گھسیڑ کو اسے بلاک کر دیتا ہے تو غصے سے کہتا ہے ”ان لوگوں میں ڈرائیونگ کا سینس ہی نہیں‘‘ دوسروں کی طرف سے لائن توڑنے پر مرنے مارنے پر تُل جانے والا خود یہ حرکت کرے تو فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے ”یہ پاکستان ہے، یہاں سب جائز ہے‘‘۔ رات کو چوری کے لیے جانے والا ساتھیوں کو اپنی ناکامی کا فسانہ یوں سناتا ہے ”وہ بے ایمان جاگ رہے تھے‘‘۔ زیادتی کے ملزم کے سرپرست جب مظلوم کے گھر راضی نامے کے لیے جاتے ہیں تو واپسی پر بتاتے ہیں ”بے غیرت مان ہی نہیں رہے‘‘ ڈاکو اپنی ناکامی کا ذمہ دار شکار کو ٹھہراتا ہے کہ اُلو کے پٹھے نے مزاحمت کر دی۔ جس نے اپنی جڑوں کی سیرابی کرپشن سے کی ہوتی ہے، وہ سینہ تان کر کہتا ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ آمروں کے حقے تازہ کرنے والے خم ٹھونک کر اعلان کرتے ہیں ”جمہوریت کے لیے تن من دھن نچھاور کر دیں گے‘‘۔ بنیادی حقوق کی سرکوبی پر مبنی منشور رکھنے والے جن نابغوں کو عوام اپنی نمائندگی کی بارگاہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے، وہ صدقِ دل سے سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ جاہل، گھامڑ اور لدھڑ ہیں۔

ہم لوگ بھی عجیب پارہ صفت ہیں کہ بیک وقت شوقِ جمہوریت بھی پال رکھا ہے مگر نظریاتی مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں۔ عوام کو اختیارات کا منبع کہتے ہیں مگر ان کا فیصلہ بھی قبول نہیں۔ میڈیا کی آزادی کے قائل ہیں مگر آزادیٔ اظہار کا سلیقہ بھی نہیں۔ تنقید کو اپنا حق خیال کرتے ہیں مگر تنقید کا قرینہ بھی نہیں۔ رواداری، برداشت، توازن اور وسیع القلبی کے لچھے دار خطبے عروج پر ہیں مگر بغل میں دبی بغض کی پوٹلیاں پھینکنی بھی نہیں۔ عوامی حکمرانی کے تصور کے شیدائی کچھ برادرانِ ملت منتخب نمائندوں کو نشانے پر رکھنے والے محترم اصحاب کو جمہوریت کے سر کی رِدا نوچنے والے کہتے ہیں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے آمریت میں خوشامدوں کے نوشتے لکھنے والے چند پیارے پیارے بھائی جمہوریت کے قصیدہ خوانوں کو درباری قلمکار اور لبرل فاشسٹ گردانتے ہیں۔ سیاست کے شاہسواروں کا بھی جواب نہیں۔ اگر اہل مذہب کافر گری میں اپنی مثال آپ ہیں تو اہل سیاست بھی غدار گری میں ثانی نہیں رکھتے۔ مقصدیت اور معقولیت سے عاری شیریں کلامی دیکھیے ”فلاں اور ملک اکٹھے نہیں چل سکتے‘‘ ”سڑکوں پر گھسیٹیں گے‘‘ ”دشمن کا ایجنٹ ہے‘‘ ”فلاں نمائندے کو مزید برداشت نہیں کریں گے‘‘ تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟… اسے عوام نے منتخب کیا ہے، آپ کیوں برداشت نہیں کریں گے بھئی؟ اسے عدالت سے نااہل کرائیں یا انتخابات کا انتظار کریں۔

قلم اور گفتار کے ہتھیاروں سے لڑی جانے والی یہ جنگ ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ عام آدمی بھی حسب توفیق چوپالوں میں اور تھڑوں پر اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ گویا ہم نظریاتی اختلافات کو ایک دوسرے کی نیتوں پر شبے کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں، جس سے مخالفین کی حب الوطنی مشکوک قرار پاتی ہے اور وہ غدار اور ملک دشمنوں کی صف میں آ کھڑے ہوتے ہیں۔ منطق اور دلیل کی بجائے گالی سے لڑی جانے والی اس لاحاصل جنگ میں جب ہمارے اصل مسائل کہیں دور رہ جاتے ہیں تو دنیا اس ستر سالہ ملک کو نابالغ لوگوں کا وطن کہتی ہے۔ سچ، ایمانداری، قانون کی پاسداری، انصاف اور احترامِ انسانیت دنیا بھر میں اخلاقیات کے معیار ٹھہرے ہیں۔ ہم کج ادا ان سے تہی ہیں اور دنیا کو یہی اسباب پڑھانے پر مصر بھی۔ سفر یوں کٹ رہا ہے کہ:
سچ ہے گالم گلوچ شرفا کی
جھوٹ اہل زباں لگتا ہے

صاحبو! ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ یورپ میں ایک انقلاب آیا تھا۔ وہ انقلاب جس کے طفیل آج کی محیرالعقول انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے علوم کو سمارٹ فون کے دامن میں سمو دیا ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ قرونِ وسطی میں عروج پانے والی پاپائیت کا اختتام اس علمی اور صنعتی انقلاب کا آغاز تھا۔ ہماری سر زمینوں کے تقاضے ان سے مختلف ہیں۔ تاہم جناب خورشید ندیم کے ”مذہب و سیاست‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے جانے والے کالم ہمیں دعوت فکر دیتے ہیں۔ ایک تحریر میں آپ نے انڈونیشیا کا تجزیہ بھی کیا ہے، جس میں وہاں مذہب و سیاست کے درمیان تعلق پر بحث کی گئی ہے۔ خود ہم نے چند روز برادر اسلامی ملک ملائیشیا میں رہ کر ان کے ”طریقہ واردات‘‘ کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان کی مضبوط معیشت، خوشحالی، فی کس آمدنی، شرح خواندگی، صفائی، بلند عمارتیں، منظم ٹریفک، قانون کی حکمرانی اور شہریوںکے صحت مند رویے دیکھ کر رشک آتا ہے۔ زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پورے جوبن پر ہے۔ پُر شکوہ مساجد بھی ہیں اور کلچرل سنٹرز بھی۔ روحانی محافل بھی ہیں اور نائٹ کلب بھی۔ واعظ و تبلیغ بھی ہے اور تفریح کے ذرائع بھی۔ کسی بھی کوئی قدغن نہیں، جو جہاں چاہے آزادی سے جا سکتا ہے۔ کلب جانے والے کو نمازی پر اعتراض ہے، نہ اہل مدرسہ کو ثقافتی مراکز کی سرگرمیوں پر۔ شیخ جی بھی معتبر شہری ہیں اور رِند بھی۔ اگر کوئی معتوب ہے تو فقط قانون کی خلاف ورزی پر۔ مذہبی رجحان کی حامل خواتین پردے میں مصروفِ عمل ہیں اور بہت سی مغربی تہذیب میں آسودگی محسوس کرتی ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کسی کی اخلاقیات کو متلی ہوتی ہے نہ کسی کا مذہب یا ایمان خطرے میں پڑتا ہے ۔ کہیں کوئی تہذیبی تصادم ہے، نہ فرقہ وارانہ فساد۔ مذہبی اقدار سے انتہا پسندی وجود میں آئی ہے، نہ لبرل ازم سے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ہوئی ہیں۔ علما وعظ و تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو بھلائی کی طرف راغب کرتے ہیں مگر کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا کوئی رواج نہیں۔ اپنی تمام تر ”خرافات‘‘ کے باوجود ان لوگوں کا ایمان بہرحال ہم سے مضبوط ہے کہ کسی کو اپنے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ درکار ہے، نہ بات بہ بات تجدید نکاح کی ضرورت۔

برادرانِ ملت! ہم نے لبرل ازم اور سیکولرازم جیسی معتبر اصطلاحات کو گالی سے تعبیر کر رکھا ہے۔ ہمارے نظریات سیاسی ہوں یا مذہبی، دلیل کی بجائے تلوار اور مکالمے کی جگہ دشنام طرازی ہمارے موثر ہتھیار ہیں۔ وعدے کے مطابق آج ہم ”یکڑیانہ چال چلن‘‘ کا کوئی حوالہ نہیں دیں گے۔ نفرتوں کی سنگلاخ چٹانوں سے محبتوں کی جوئے شیر بہانے کی اپنی ”خواہشِ بیمار‘‘ کا ذکر بھی نہیں کریں گے۔ البتہ یہ نوحہ ضرور پڑھیں گے کہ جانے عمرِ رواں کا یہ کون سا نامراد دور ہے کہ:
اور اب اٹھتے نہیں ہاتھ دعائوں کے لیے
ہم کہ ہر بات پہ تلوار اٹھا لیتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).