اڑ جا سم سم۔۔۔


میں نے آج تک نہیں سنا کہ عدالت نے کسی کے خلاف فیصلہ دیا ہو اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا ہو کہ خدا کا شکر ہے حق و انصاف کی فتح ہوئی ہے۔ یہ فتح تب ہی ہوتی ہے جب فیصلہ حق میں ہو جائے۔

جیسے کہ کل عمران خان کے خلاف حنیف عباسی کے دائر کردہ کیس میں حق اور انصاف کی فتح ہوئی۔ عدالت نے تحریکِ انصاف کے لیے غیر ملکی فنڈنگ کی چھان پھٹک کے لیے دائر پیٹیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو درخواست گزار حنیف عباسی اس کیس کا براہِ راست متاثر نہیں دوسرے یہ کہ غیر ملکی فنڈنگ کے بارے میں چھان پھٹک الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔

عام طور سے کسی بھی درخواست گزار کے براہ راست متاثر فریق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ چند سماعتوں میں ہو جاتا ہے مگر اس کیس میں ایک برس سے زائد مدت میں 50 کے لگ بھگ سماعتوں کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ درخواست گزار براہِ راست متاثرہ فریق نہیں۔

اگرچہ عمران خان کل اپنی بریت پر خداِ بزرگ و برتر اور انصاف کا شکر بجا لائے مگر انہی تین ججوں نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے بارے میں جو فیصلہ دیا اسے خان صاحب حق اور انصاف کی فتح قرار دیتے دیتے رہ گئے۔ بلکہ عدالت نے اگر جہانگیر ترین کو غیر صادق اور غیر امین قرار دیا تو خان صاحب نے فیصلے پر ردِ عمل میں ترین صاحب کے ایماندار ہونے کی گواہی دے دی۔

جس جہانگیر ترین نے اقامے کی ٹکنیکیلٹی پر نواز شریف کی نااہلی کو حق اور انصاف کی فتح قرار دیا تھا انہی ترین صاحب نے اپنی نااہلی کو محض ایک ٹکنیکیلٹی کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ بتاتے ہوئے اس کے خلاف اپیل کا فیصلہ کیا ہے۔

نواز شریف چونکہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل قرار پا گئے تھے لہٰذا ان کا مسلم لیگ ن کا صدر بننا بقول عمران خان سیاسی اخلاقیات کی پامالی ہے۔ مگر صادق اور امین کی شرائط پر پورا نہ اترنے کے باوجود جہانگیر ترین کا پی ٹی آئی کی جنرل سیکریٹری شپ پر برقرار رہنا کم از کم اس وقت تک تو بنتا ہے جب تک اس ریویو پٹیشن کا فیصلہ نہیں ہوجاتا جو کہ ابھی فائل ہونا ہے۔

اور اگر ریویو پٹیشن میں بھی خدانخواستہ جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ برقرار رہتا ہے تب بھی ان کا پارٹی عہدہ رکھنا اس لیے غیر مناسب نہ ہوگا کیونکہ بقول عمران خان جہانگیر ترین کا موازنہ ان لٹیروں (یعنی شریف ِخاندان) سے کرنا درست نہیں جو تین سو ارب روپے ہضم کر گئے۔

عمران خان کے شدید تحفظات کے باوجود پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں پارٹی عہدے کے لیے اہلیت کا جو معیار رکھا گیا ہے وہ صرف نواز شریف کے لیے تھوڑا ہے۔ یہ ایکٹ تو اب ایک قومی دستاویز ہے اور پاکستان کا ہر شہری اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ جہانگیر ترین نے کیا قصور کیا ہے۔

شہباز شریف اور نواز شریف

کل ہی سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کا کیس دوبارہ کھولنے سے نیب کو منع کردیا۔ چنانچہ اس فیصلے کے سب سے بڑے مفادی یعنی شہباز شریف نے ٹویٹ کیا کہ ’یہ حق و انصاف کی فتح ہے اور اس سرخروئی پر وہ اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں۔‘ اس فیصلے کا ججوں سے بد زن نواز شریف نے بھی مسکرا کے خیرمقدم کیا۔ مگر انھوں نے اچھا کیا کہ احتیاطاً اسے حق و انصاف کی فتح قرار دینے سے گریز کیا۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

اب نیب عدالتوں میں نواز شریف وغیرہ کے خلاف زیر سماعت تین ریفرینسز اور انسدادِ دہشت گردی عدالت میں عمران خان کے خلاف زیرِ سماعت پارلیمنٹ اور ٹی وی سٹیشن پر حملوں اور پولیس کی تحویل سے قیدیوں کو زبردستی چھروانے کی فردِ جرم کے فیصلے بھی انتخابات سے پہلے پہلے متوقع ہیں۔ دیکھتے ہیں ان میں حق و انصاف کی فتح ہوتی ہے کہ نہیں؟

مگر مجھ جیسوں کو کیوں ’مسوس‘ ہو رہا ہے کہ نادیدہ (آسمانی) قوتیں عمران خان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہیں۔ آدمی کی نیت صاف ہو تو زمینی رکاوٹیں بھی ایک کے بعد ایک دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔

جہانگیر ترین کی نااہلی سے اگر کوئی فرق پڑا تو بس اتنا کہ اڑ جا سم سم کی جگہ کھل جا سم سم کا منتر لے لے گا اور برسرِ اقتدار آنے کے کچھ ہی عرصے بعد ’اب جا سم سم‘ شروع ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).