جہانگیر ترین کی نااہلی اور سپریم کورٹ کی ایڈوائسز


پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے جمعے کے روز مسلم لیگ نواز کے رہنما محمد حنیف عباسی کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین کو نااہل قرار دیتے ہوئے جہاں کیس کے براہ راست نکات پر فیصلہ دیا وہیں امورِ حکومت کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں بھی کیں:

عدالتوں پر جمہوریت کو بچانے کی ذمہ داری

جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں لکھا کہ جمہوریت، آئین کا بنیادی پہلو ہے اور آئین کے محافظ کے طور پر جمہوریت کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالتوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اراکین پارلیمان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں اور ایک جمہوری عمل کے ذریعے پارلیمان تک پہنچتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’شکر ہے خان بچ گیا‘

جس بھی چیز کو ہاتھ لگایا وہ سونا ہوگئی

جہانگیر ترین کو نااہل کیوں کیا گیا؟

عمران پاس، ترین فیل: ’آپ پاس اور دوست کی سپلی‘

اڑ جا سم سم۔۔۔

اراکین پارلیمان کا تقدس

سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو ‘کو وارنٹو’ (کسی عہدیدار یا شخص سے یہ پوچھنے کا حق کہ وہ کس اختیار کے تحت اس عہدے پر فائض ہے) کے تحت نااہل تو قراد دے دیا لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی واضح کیا کہ آئین کے تحت کسی سے اپنے عہدے پر فائز رہنے کے حق کے بارے میں جواب مانگنے کا یہ اختیار اراکین پارلیمان پر لٹکتی تلوار نہیں بن سکتا۔

عدالت نے آئین کے آرٹیکل 24 کا بھی ذکر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست اپنی طاقت اور اختیارات منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔

پارلیمان کی بالادستی

عدالت نے واضح کیا کہ پارلیمان قانون سازی کے لیے اعلیٰ ترین ادارہ ہے اور ریاست کی پالیسیاں وضع کرنے کے لیے بھی یہی سب سے بڑا ادارہ ہے۔ فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ انتظامیہ بھی اسی ادارے سے جنم لیتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ درست ہے کہ پارلیمان سے پاس ہونے والے قوانین اور انتظامی فیصلوں پر عدلیہ فیصلہ کر سکتی ہے، لیکن یہ اختیار آئین کی وضع کی گئی حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال ہونا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ یہ حقیقت پارلیمان یا اراکین پارلیمان کے تقدس یا ان کی اہمیت کم کرنے کی وجہ نہیں بن سکتی۔

سپریم کورٹ نے لکھا کہ عدالتوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اراکین پارلیمان عوام کے منتخب نمائندہ ہوتے ہیں اور ایک جمہوری عمل کے ذریعے پارلیمان میں آتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے لکھا کہ عدالتوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اراکین پارلیمان عوام کے منتخب نمائندہ ہوتے ہیں اور ایک جمہوری عمل کے ذریعے پارلیمان میں آتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ’کو وارنٹو‘ کے اختیار کو اراکین پارلیمان کو نیچا دکھانے، ڈرانے یا غیر ضروری طور پر ہراساں کرنے کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ ‘کو وارنٹو’ کی درخواست کے ذریعے دباؤ ڈال کر اراکین پارلیمان کو آئین اور قانون کے مطابق اپنا کام کرنے اور فرائض کی ادائیگی سے روکا جائے۔

سپریم کورٹ نے لکھا کہ عدالتوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اراکین پارلیمان عوام کے منتخب نمائندہ ہوتے ہیں اور ایک جمہوری عمل کے ذریعے پارلیمان میں آتے ہیں۔

ریاستی ڈھانچہ اور ایماندار لوگ

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی پہلی سطر میں لکھا کہ ‘ایمانداری انسان کی سب سے بڑی خوبیوں میں سے ایک ہے۔’ عدالت نے لکھا کہ ایسی اقوام اور ریاستیں جن کا نظام حکومت آئین اور قانون کی بالادستی کے اصول کے تحت چلتا ہے اگر وہاں بے ایمان افراد کے ہاتھ میں حکومت آ جائے تو وہ قومیں راستے سے بھٹک جاتی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ہم اسی تناظر میں حکومت میں شامل افراد کی ایمانداری کا عمومی طور پر اور عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت فیصلہ کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32189 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp