ایک بستی بٹالہ نام کی


دریائے راوی کے اس پار،زمین کے اس ٹکڑے پر جو اب بھارت کا حصہ ہے، تھی۔ مردم خیز خطہ تھا۔ یہاں کے ایک بزرگ غلام اکبر خان بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں لاہور کے کوتوال رہے پھر ان کے بڑے صاحبزادے ذوالقرنین خان لاہور پولیس میں تعینات رہے۔ ایک صاحبزادے آغا بابر کو پاکستان میں تھیٹر کے ابتدائی صورتگروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ غلام اکبر خان کے سب سے چھوٹے بیٹے اعجاز بٹالوی تھے جنہوں نے ریڈیو آزاد کشمیر،بی بی سی لندن،حلقہ ارباب ذوق اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں نطق اعجاز کے جھنڈے گاڑے۔
اسی دودمان کاروشن ترین چراغ عاشق حسین بٹالوی تھا۔ قانون دان تھا توسر فضل حسین اورمیاں برکت علی کا ہم نشیں،سیاستدان تھا تو علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کی صف میں بار رکھتا تھا،افسانہ نگارتھا تو چراغ حسن حسرت اور مولانا صلاح الدین احمد سے سخن کی داد لیتا تھااور صحافی تھا تو غلام رسول مہرسے ٹکر لیتا تھا۔ عاشق حسین بٹالوی نے تاریخ نویسی میں قدم رکھا تو اس کا کوئی مثیل نہیں تھا۔ بیسویں صدی کے نصف اول کی تاریخ ِپنجاب میں عاشق بٹالوی کو ماخذ کی حیثیت حاصل تھی۔ کیوں نہ ہو تیسری اور چوتھی دہائی میں پنجاب مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی آبیاری کی ۔ لیاقت علی خان نے سکندر حیات خان سے تال میل کرکے پنجاب کے جاگیرداروں کو مسلم لیگ میں رسوخ بخشا تو عاشق حسین بٹالوی کا ناریل چٹخ گیا، طبیعت براق تھی، وارفتہ مزاج تھے، دیانتدار تھے، سمجھ لیا کہ یہ دریا اب ان صحراﺅں میں بہے گا جہاں اجتماعی خوابوں پہ برگ و بار نہیں آیا کرتا۔ آزادی کے بعد نئے ملک کے رنگ ڈھنگ دیکھے تو برطانیہ چلے گئے۔ قلم سے روزی کماتے رہے، تنگ دست رہے،اپنے وطن میں سب کچھ تھا حتی کہ حفیظ جالندھری بھی تھا، مگر لوٹ کر نہیں آئے۔ ”ہماری قومی جدوجہد“ لکھی۔ ”اقبال کے آخری دو برس“ تحریر کی ۔ ”چند یادیں چند تاثرات “ کے نام سے ان مشاہیر کا تذکرہ لکھا جنہیں براہ راست جانتے تھے۔ عاشق حسین بٹالوی نے 1989 ءمیں لندن میں وفات پائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments