یوم جمہوریہ سے یوم پاکستان تک؟


صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں مدوجزر کی شہر آشوب تعریف کرتے ہوئے لکھا ’’مد عوامی لیگ کا اور جزر پاکستان کا‘‘۔ اب عوامی لیگ رہی نہ مشرقی پاکستان ،مگر مدوجزر ہمارے ساتھ ہے۔ قومی اہمیت کے ایام پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ مذہبی تہواروں کی چھٹیاں پھیلتی جا رہی ہیں۔ 14اگست کو یوم آزادی منانے کی روایت بھی اس لئے بچ گئی کہ ضیاالحق نے مخصوص سیاسی ضرورت کے لئے اس موقع پر جشن کا اعلان کیا تھا۔ یوم پاکستان، بانیان پاکستان کی پیدائش اور وفات کے دن، یوم دفاع اور یکم مئی سب کو اس جوار بھاٹے نے آلیا۔ نہ رہا جنون رخ وفا…  دہشت گردی کی آفت کے نقطہ عروج پر کئی برس تک اسلام آباد میں 23 مارچ اور 14 اگست کے مواقع پر قومی عوامی پریڈ بھی نہ ہو سکی جو ایک طرف مسلح افواج کی تیاری، مہارت اور جذبے کی توثیق کرتی تھی اور دوسری طرف عوام کو اپنی مسلح افواج کے بارے میں اعتماد حاصل ہوتا تھا۔ تاہم ؐ گزشتہ ایک آدھ برس مین آپریشن ضرب ؑ عضب کی کامیابی کے بعد کچھ قومی تہواروں کے پلٹنے کی امید بندھ چلی ہے۔ ان مین 23 مارچ کا قومی تہوار بھی شامل ہے۔

23 مارچ یوم جمہوریہ ہے۔ پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956ء کو نافذ ہوا تھا اور اس موقع پر پہلا یوم جمہوریہ منایا گیا تھا کیونکہ اس روز باقاعدہ طور پر پاکستان تاج برطانیہ کی عاطفت سے آزاد ہو کر جمہوریہ قرار پایا تھا۔ جمہوریہ یعنی ایسا ملک جہاں پر شہریوں کی حاکمیت ہو گی۔ جو کسی خسرو عالی جاہ کی جنبش چشم کے تابع نہیں ہو گا۔ تاسف کا مقام ہے کہ دوبرس بعد ہی مارشل لا نافذ ہو گیا۔ ہم نے پاکستان کا آئین بنانے میں دس برس لگائے اور اسے توڑنے میں دو برس۔ ہندوستان نے بھی اپنا آئین 26 جنوری 1950ء کو نافذ کیا تھا کیونکہ آل انڈیا کانگریس نے 26 جنوری 1930ء کو لاہور ہی میں ہندوستان کی مکمل آزادی کی قرارداد منظور کی تھی۔

26 جنوری بھارت کا یوم جمہوریہ ہے۔ 1940ء کی قرارداد کی مناسبت سے 23مارچ پاکستان کا یوم جمہوریہ قرار پایا۔ پاکستان میں ایوب خان راج سنگھاسن پر آبراجے، تو یوم جمہوریہ کسے یاد رہتا۔ جب جمہوریت ہی راندہ درگاہ ٹھہری تو کیسا یوم جمہوریہ۔ کسی دفتری بابو نے 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کے بجائے یوم پاکستان قرار دے دیا۔ اب ہم اسی کاٹھ کی مورت کے سامنے ڈنڈوٹ بجا لاتے ہیں۔ تو صاحب بات یہ کھلی کہ 23 مارچ پاکستان میں شہریوں کے حق حکمرانی کے اعلان کا دن ہے۔ 23 مارچ 1940ء اگر غیر ملکی غلامی سے آزادی کے اعلان کا دن تھا تو 23 مارچ 1956ء اس آزادی کے حقیقی معنی کا اعلان تھا۔ سرکاری ڈھنڈورچیوں نے اس ملک کی زندہ تاریخ کو ایسے دیمک زدہ مخطوطے میں تبدیل کر دیا جسے مفاد کی خوردبین کے نیچے رکھ کے جو چاہے معنی دے لو۔

متحدہ ہندوستان میں استخلاص وطن کی جدوجہد کرنے والی قیادت دستوری طریق کار اور جدید سیاسی نظریات میں یقین رکھتی تھی۔ آزادی کے نصب العین کی حد تک قائداعظم محمد علی جناح،موتی لال نہرو اور گاندھی جی میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ قائداعظم تو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ میثاق لکھنؤ کے معمار تھے۔ گوپال کرشن گوکھلے، سروجنی نائیڈو اور سریندر ناتھ بینر جی کے ہم سفیر تھے۔ قائداعظم نے تحریک خلافت میں اس لئے حصہ نہیں لیا کہ وہ جانتے تھے کہ اس جذباتی ابال کا کوئی اور چھور نہیں۔

اختلاف کا مقام وہاں پیدا ہوا جب یہ واضح ہو گیا کہ صدیوں کے تاریخی ارتقا میں شمال مغربی ہندوستان کی معاشی، سماجی اور سیاسی ساخت جنوب مشرقی ہندوستان کے معاشی اور معاشرتی نمونے سے بہت مختلف ہے۔ صدیوں سے غیر ملکی حملہ آور شمال مغرب کے پہاڑوں سے وارد ہوتے تھے۔ لاہور اور ملتان میں ٹھیکی لیتے تھے اور دلّی پہنچ کر لنگر ڈال دیتے تھے۔ سلاطین اور مغل ادوار میں ہندوستان کے وسیع مشرقی خطوں میں مرکزی عمل داری قائم نہیں ہو سکی۔ شمال مغرب میں عسکری اور جاگیردارانی روایات کا چرچا رہا تو دربار اور اقتدار کے مراکز سے دور مشرقی ہندوستان میں تجارت اور دستکاریوں کو فروغ ملا۔ یورپی قابضین شمال مغرب سے نہیں ، مشرق کے راستے ہندوستان میں آئے۔

اہل یورپ تجارت کے لئے آئے تھے اور مشرقی ہندوستان میں تجارت کی روایت اور ثقافت موجود تھی۔ یہ طلب اور رسد کا فطری اتحاد تھا۔ یہ بحری قوت کا زمانہ تھا اور دلّی کا دربار گہرے پانیوں کی سیاسی، عسکری اور تجارتی اہمیت سے ناآشنا تھا۔ چھاپہ خانہ کلکتہ، سورت، بنارس ، مدراس اور بمبئی کے راستے ہندوستان پہنچا۔ پلاسی کی لڑائی 1757ء میں ہوئی تھی اور دہلی پر برطانوی اقتدار ٹھیک سو برس بعد 1859ء میں قائم ہوا۔ سو برس کا یہ زمانی فاصلہ ہندوستان کے ان خطوں کو معاشرتی اور معاشی طور پر باقی ماندہ ہندوستان سے مہمیز کرتا تھا جوآج پاکستان کہلاتے ہیں۔شمالی مغربی ہندوستان کی مسلمان اشرافیہ صدیوں سے رسوخ اور استخراج کے ذریعے سیاسی اقتدار سے متمتع ہوتی رہی۔ برطانوی ہندوستان میں انہیں خدشات پیدا ہوئے کہ غیر مسلم اکثریت کی حکومت میں ان کے مفادات کا کماحقہ تحفظ نہیں ہو سکے گا۔ اس کا پہلا ٹھوس اشارہ 1927ء کی نہرو رپورٹ تھی۔

اس کے جواب میں قائداعظم کے چودہ نکات دیکھئے۔ یہ سب سیاسی مطالبات تھے۔ مسلم لیگ دستوری تحفظات چاہتی تھی۔ 1937ء کے انتخابات کے بعد جن صوبوں میں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کے خدشات اور احساسات کو پذیرائی نہیں دی گئی۔ قائداعظم نے تو 1946ء میں کابینہ مشن منصوبہ بھی منظور کر لیا تھا ۔ متحدہ بنگال کی تجویز بھی دی تھی۔ کہنا چاہئے کہ متحدہ ہندوستان میں کانگریس کی قیادت اپنے حجم کی رعونت پر قابو نہیں پا سکی اور مسلم لیگ طرز جمہوری سے خوفزدہ رہی۔ ایک طرف جمہوریت کا خوف تھا اور اپنے خصوصی تشخص پر اصرار تھا تو دوسری طرف زعم تھا کہ ہم اپنی عددی اکثریت کی بنا پر اقلیت کو روند سکتے ہیں۔ یہ ایک دستوری بحران تھا ۔ متحدہ ہندوستان کی قیادت بشمول کانگریس اور مسلم لیگ اس بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر دیکھئے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ہندوستان کی تقسیم دستوری بحران کا نتیجہ تھی۔

یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخی شعور کا حقیقی منصب یہی ہے کہ اس کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔ ہم پاکستان میں آج بھی جمہوریت سے خوفزدہ ہیں اور گمان رکھتے ہیں کہ کسی مسیحائی نسخے کی مدد سے ریاست کا ایسا نمونہ تیار کیا جا سکتا ہے جس میں وفاق، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے جھنجٹ نہ ہوں۔ 23مارچ یوم جمہوریہ ہے۔یہ دن یاد دلاتا ہے کہ پاکستان مافوق الفطرت ریاست نہیں۔ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح پاکستان قائم بالذات ہے۔یہاں کے بیس کروڑ لوگ اپنے مستقبل کی صورت گری کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں نہ تو کسی دوسری قوم کے تابع ہونے کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے دشمنی پالنے میں ہمارا تشخص ہے۔ ہمارا تشخص پاکستان کے باشندوں کی علمی، معاشی اور تمدنی ترقی ہے اور یہ ترقی جمہوریت کے جملہ تقاضوں کو تسلیم کئے بغیر ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments