ملتان مابہ جنت اعلیٰ برابر است


ان دنوں ملتا ن میں ہوں۔ ملتان!مدینتہ الاولیا، حضرت بہا الدین ذکریاؒ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، حضرت شاہ جمالؒ، حضرت شاہ شمس ؒ اور بے شمار اولیاؒ کا مسکن جس کے بارے میں ’’ ملتان مابہ جنت اعلیٰ برابر است ‘‘ کہا گیا۔ ملتان سے مجھے ایک خاص نسبت ہے اور اس کی کوئی ایک وجہ نہیں۔ ملتان وہی شہر ہے جہاں مجھے ایک سچے عاشق رسول ﷺ، بے پایاں شفیق اور انسانیت سے محبت کرنے والی ایک ہستی خواجہ شمس الدین عظیمی کا قرب میسر آیا۔ اس شہر میں میری پیشہ ورانہ زندگی کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی شہر کے باسیوں نے مجھے صحافت سکھائی اورمیرا ہاتھ پکڑ کر لفظوں کودرست کرنا سکھایا۔ خدا برکت دے اصغر علی زیدی اور محسن نواز خان کو، یہ دونوں میرے محسن ہونے کے ساتھ ساتھ دوست بھی ہیں۔ محسن اس لئے کہ آج میں جس مقام پر بھی ہوں اس میں ان دونوں شخصیات کی رہنمائی اور خلوص کا بڑا دخل ہے، دوست اس لئے کہ ان کے ساتھ جب بھی ملتا ہوں دوستوں کی طرح گپ لگاتا ہوں اور ٹھٹھے اڑاتا ہوں۔ محسن نواز خان کے جملے کی کاٹ سے میں ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگ ڈرتے ہیں۔

گو یہ دونوں ہستیاں لاہور منتقل ہو گئی ہیں لیکن ملتان پہنچا ہوں تو ان کی یادآنا فطری امر ہے۔ رضی الدین رضی، خوبصورت شاعر، نثر نگار اور انسانی حقوق کے حامی ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی بھی مجھے میسر رہی اور آج بھی میسر ہے۔ روزی روٹی کے چکر میں وہ بھی ملتان چھوڑ گئے تھے لیکن ملتان کی محبت انہیں جلد ہی واپس کھینچ لائی۔ بڑھاپے میں قدم رکھتے ہوئے بھی جوانوں جیسا عزم رکھتے ہیں۔ ملتان کے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ان تینوں شخصیات کی شاگرد ہے۔ جا معہ ذکریا میں استاد محترم ڈاکٹر ایاز رانا اور ڈاکٹر مقرب اکبر سے ملاقاتیں بھی جاری ہیں لیکن مصروفیت کی وجہ سے باجود خواہش کے ڈاکٹر انوار سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ بہت جلد ان کی خدمت میں بھی حاضری دوں گا۔

محمد امین زاہد کا ذکر اس لئے ضروری نہیں کا میرا اور اس کا تعلق دنیاوی رکھ رکھاؤ اور رسوم ورواج سے ماورا ہے۔ ملتان کا ذکر کروں او ر بے غرض دوست چودھری آصف کی بات نہ کروں یہ ممکن نہیں۔ ملتان سے دو گھنٹے کی مسافت پر تھا کہ چودھری آصف کو بتا یا ملتان آرہا ہوں۔ چودھری آصف یاروں کا یار ہے۔ پڑھے لکھے گھرانے کا فرد ہے لیکن نوکری کے جھنجٹ میں نہیں پڑا۔ محنت سے اپنا کاروبار جمایا ہے لیکن بہت ساری مصروفیا ت میں سے دوستوں کے لئے وقت نکالنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مہمانوں کی اور دوستوں کی تواضع پر پیسے خرچ کرنا شاید اس کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ ملتان پہنچا تو گاڑی لئے ایک اور پرانے دوست کے ساتھ ٹرمینل پر میرا منتظر تھا۔ سلام دعاکا تکلف ایک طرف ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اورجگتوں کا سارا سٹاک ختم کرنے میں مصروف ہو گئے۔

فون پر رابطے میں رہنا الگ بات ہے لیکن پرانے دوست جب عرصے بعد ملتے ہیں تو رہ جانے والی ملاقاتوں کا کوٹہ پورا کرنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جیسا کسی بھوکے کے لئے پیٹ بھرنا۔ ہماری پھکڑبازی جاری تھی کہ چودھری آصف نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے باہر روک دی، بولا چل پیٹ پوجا کرتے ہیں۔ ملاقاتوں اور پیٹ پوجا کا سلسلہ جاری ہے۔ کبھی ملتان کی مشہور و معروف شید ن کی مچھلی، کبھی باربی کیو اور کبھی مٹن کڑاہی۔ ملتان میں گزشتہ ایک ہفتے سے موسم بہت سرد ہے، دو دن کی بارش اور بعد کی خنک ہوا اسلام آباد کا موسم یاد دلاتی ہے۔ سردی میں دوستوں کا ساتھ ہو اور کافی نہ پی جائے تو یہ کفران نعمت ہے۔ ایک رات میں اور آصف کافی پینے گول باغ چوک جا پہنچے۔ ایک ریسٹورنٹ میں رکھی مشین سے کافی لی اوردھند میں سڑک کنارے رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر پینے لگے۔ ابھی ایک ایک گھونٹ حلق سے اتر ا تھا کہ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں ریسٹورنٹ اور مشین کو جو گالیاں ہم نے دیں وہ یہاں تحریر نہیں کی جاسکتیں۔

کافی، کافی بدمزہ تھی یا شاید ہمیں لگی، بہرحال ہمار اموڈ خراب ہوگیا۔ طے یہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں جب بھی فرصت ملے گی کافی میں بناؤں گا اور پئیں گے ہم دونوں۔ فلم سٹار نرگس کے ’’خود منہ بولے بھائی‘‘ ملک اشرف کو تومیں بھول ہی گیا جو بیک وقت لائلپوری اور ملتانی دونوں وصف رکھتا ہے۔ ہم تینوں جب اکٹھے ہوجائیں تو ہمارے جملوں کے ایٹم بموں سے بچنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ ملک اشرف سے لیکن بوجوہ ملاقات ابھی ہو نہیں سکی۔ میں نے اور چودھری آصف نے منصوبہ بنا رکھا ہے کہ اب ملک اشرف سے ملیں گے تو اس سے فلم سٹار نرگس کے تائب ہونے اور دوبارہ شوبز انڈسڑی میں واپسی بارے ’’وچلی گل ‘‘ ضرور پوچھیں گے۔ چاچوامجد سے ایک ملاقات تو ہوچکی لیکن ابھی اور ملاقاتیں بھی ہوں گی۔

ملتان میں آمد سات برس بعد ہوئی ہے۔ ان سات برسوں میں دو چار بار ملتان آمد ضرور ہوئی لیکن چند منٹوں یا دو چار گھنٹوں کے لئے، شہر کو گھوم پھر کر دیکھنے اور دوستوں سے تفصیلی ملاقاتوں کا موقع نہیں ملا۔ ملتان اب بہت بدل گیا ہے۔ آبادی میں غیر معمولی اضافہ سڑکوں پر چلتی ٹریفک کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ کچھ چوک چوراہے اور سڑکیں چوڑی تو کی گئی ہیں لیکن وہ پھر بھی وہ ٹریفک کا دباؤ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوئیں کہ شہری تجاوزات سے باز نہیں آتے اور تجاوزات کے خاتمے کے ذمہ داریا تو ہڈ حرام ہو چکے ہیں یا حرام ان کے منہ کو لگ چکاہے، بہرحال دونوں صورتوں میں مشکلات کا شکار عوام ہی ہیں اور جب تک ان کو خود عقل نہیں آتی حالات کا سدھرنا ممکن نہیں۔

ایک کمال سڑکیں چوڑی کرنے والے انجینئرزاور شہری انتظامیہ نے بھی کیا ہے۔ مجال ہے جو کسی کو عقل آئی ہو کہ شہر کے سب سے مصروف چوک نو نمبر چونگی پر اوورہیڈ برج کے ساتھ ایک انڈر پاس کی بھی ضرورت ہے۔ پانچ سڑکیں اس چوک میں آکر ملتی ہیں لیکن کسی نابغے نے یہ نہیں سوچا کہ یہاں پیدل چلنے والوں کو بھی راستے کی ضرورت ہوگی۔ نتیجہ یہ کہ ساراد ن کان پھاڑ دینے والے ہارن سنائی دیتے ہیں اورگاڑیاں پیدل چلنے والوں کو ٹکریں مارتی ہیں۔ یہی حال کچہری چوک، ڈیرہ اڈہ اور نواں شہر چوک کا ہے۔ گھنٹہ گھر چوک کو کافی بہتر بنایا گیا لیکن وہاں بھی پیدل چلنے والوں کے لئے کوئی راستہ بنانے کے بجائے چوک کے عین درمیان مسجد تعمیر کردی گئی ہے باوجود اس کے کہ چوک میں پہلے ہی تین مساجد موجود ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ اس مسجد میں جانے والے نمازیوں کو بھی گاڑیا ں ٹکریں مار رہی ہوتی ہیں۔

میاں شہباز شریف کی میٹرو ملتان شہر میں ایک خوبصورت اضافہ ہے، گوکہ چودھری آصف کے مطابق اس کاروٹ درست نہیں بنایا گیا۔ اس کی بات بڑی حد تک درست بھی ہے کیونکہ میٹرو شہر کے واحد بڑے نشتر ہسپتال نہیں جاتی اور نہ ہی پرانی یا نئی کچہری۔ اب لیکن چودھری آصف کا یہ گلہ بھی دور ہو گیا ہے کہ ملتان میٹر و کی فیڈ ر بسیں اس جگہ بھی پہنچ گئی ہیں جہاں ملتانیوں نے دوسال پہلے پبلک ٹرانسپورٹ کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ خدا لگتی بات یہ ہے کہ ملتان کے شہریوں کو میٹر و اور اس کی فیڈ ر بسوں کی صورت جو سہولت میسر آئی ہے وہ اسلام آباد سمیت پاکستان کے کسی اور شہر کو میسر نہیں۔ ملتانی لیکن ان بسوں پر سوار ہونے کی بجائے اب بھی چنگ چی اور آٹو رکشوں میں دھکے کھار ہے ہیں، اس لئے کہ فیڈر بسوں میں سفر کے لئے ایک سو تیس روپے (قابل واپسی ) کا کارڈ خریدنا پڑتا ہے۔

خیر اب تو صوبائی حکومت نے کارڈ مفت فراہم کر کے یہ مشکل بھی دور کر دی ہے۔ میری گزارش ہے کہ اس اقدام کے بعد شہر کی انتظامیہ صوبائی حکومت کو اعتماد میں لے کر اب شہر سے چنگ چی اور آٹو رکشا کو بتدریج ختم کر دے تاکہ اس تاریخی شہر میں فضائی آلودگی اور شور کم ہوسکے۔ چنگ چی اورآٹو رکشوں کا ایک سیلاب ہے جس نے شہر کی سڑکوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اگریہ کارنامہ انجام دے لیا جائے تو اسلام آباد کے بعد ملتان وہ دوسرا شہر ہوگا جس میں رکشے جیسے بدتمیز سواری ناپید ہوجائے گی۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ روڈ انجینئرنگ نام کی بھی ایک چیز ہوتی ہے اگر مناسب سمجھیں تو ملتان میں ابھی سے اس کا خیال کریں ورنہ آبادی کا جن اور تجاوزات کی بھرمار اس شہر کے حسن کو کھا جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).