16 دسمبر: ڈھاکہ سے پشاور تک


اردو کے عظیم مزاح نگار شفیق الرحمان نے مغربی عورت سے شادی نہ کرنے کی یہ وجہ بیان کی تھی:’’سب کے سب یہ کہتے ہیں کہ لڑکا ولایت سے میم بھگا لایا ہے۔۔۔ ساتھ ساتھ یہ امید بھی ظاہر کی جاتی ہے کہ انشا اللہ میم کسی دن ضرور واپس بھاگ جائے گی‘‘۔ جب سے پاکستان بنا تھا مغربی حصے کے مقتدر حلقوں نے اس خدشے کو یقین کے ساتھ بیان کرنا شروع کر دیا تھا کہ بنگالی ایک دن ہم سے الگ ہو جائیں گے۔

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ بات کسی بنگالی کی زبان سے کبھی سننے میں نہیں آئی۔ یہ بس مغربی پاکستان کی سول اور خاکی بیوروکریسی کو الہام ہوتا تھا کہ بنگالی ہم سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں۔ اولین مسیحائے قوم فیلڈ مارشل ایوب خان نے تو بنگالی سیاست دانوں کو باقاعدہ اس بات کی دعوت دی تھی کہ آو خوش اسلوبی اور پیار محبت کے ساتھ الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ لیکن  بنگالی سیاست دان کافی کم عقل اور کج فہم واقع ہوئے تھے، انھوں نے اس مخلصانہ اور پیار بھری دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایوب خان کے نفس ناطقہ الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ ایک بار اس نے ایوب خان سے کہا کہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کی جو عمارت بنائی گئی ہے، اس میں قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہونا چاہیے۔ اس پر مستقبل بینی کی صلاحیت سے مالامال، زرخیز دماغ فیلڈ مارشل صاحب نے جواب دیا ان بنگالیوں نے ہمارے ساتھ نہیں رہنا۔ میں نے ڈھاکہ میں چند عمارتیں اس لیے بنوا دی ہیں کہ جب یہ علیحدہ ہوں تو ان کے پاس ڈھنگ کا کوئی کیپیٹل ہو۔ دیکھیے فوجی حکمران کو بنگالیوں کا کتنا خیال تھا کہ علیحدگی پر انھیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ حیف ہے ان شپرہ چشم لوگوں پر جو اس کے باوجود فوجی حکمرانی پر پاکستان کے ٹوٹنے کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔

بعد ازاں دوسرے فوجی حکمران حضرت جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے بھی پیار محبت سے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن بنگالی ٹھہرے سدا کے شورہ پشت۔ ایک بات مان کر نہ دیے۔ اب اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لینے کے بعد کوئی حکمرانی کا حق دار تو نہیں بن جاتا۔ اس کے لیے نیک چال چلن اور حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مچھلی چاول کھانے والے بنگالیوں کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آ رہی تھی۔ چنانچہ مجبور ہو کر یحییٰ خان، ٹکا خان، اور ٹائیگر نیازی کو انھیں اس زبان میں سمجھانا پڑا جو وہ بخوبی سمجھتے تھے۔ جب ڈھاکہ میں مشین گنوں اور توپوں کے دہانے کھلے تو مغربی پاکستان کے لیڈر نے خدا کا شکر ادا کیا کہ پاکستان بچ گیا ہے۔

 اس پر مجھے میر علی احمد تالپور کی سنائی ہوئی ایک بات یاد آ رہی ہے۔ وہ جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں وزیر دفاع تھے۔ اسی کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پنجاب یونیورسٹی میں یوم اقبال کی تقریب کی صدارت کے لیے تشریف لائے تھے۔ لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھتے ہوئے انھوں نے ایک فی البدیہ تقریر ارزاں کی تھی۔ مجھے ایک بات یاد رہ گئی ہے۔ کہنے لگے ہمارے ہاں سندھی میں مالک ملازم سے کہتا ہے تم مانگو نہیں، میں دوں گا نہیں؛ مجھے چھوڑ گئے تو نمک حرام کہلاو گے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ سندھی کہاوت کسی نے شیخ مجیب الرحمان کو بھی سنائی ہو گی۔ لیکن وہ جماندرو ایجی ٹیٹر تھا، اتنی لطیف بات کیسے سمجھ سکتا تھا۔

کل ایک ٹی وی چینل پر ایک محقق صاحب کا انٹرویو چل رہا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق یہ سب پروپیگنڈہ ہے کہ تیس لاکھ یا تین لاکھ بنگالی آرمی آپریشن میں ہلاک ہوئے تھے۔ مصدقہ ریکارڈ سے صرف پچاس ہزار ہلاکتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ چلیے پروپیگنڈہ غلط ثابت ہوا، سب کہو سبحان اللہ۔ باقی پچاس ہزار کی تعداد تو واقعی اتنی زیادہ نہیں کہ اس پر شورو غوغا کیا جائے۔ اس سے زیادہ لوگ تو ستر کے سیلاب میں مر گئے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا ان محققوں کو کس زبان میں داد دی جائے۔ مجھے تو ناصر کاظمی کا یہ مصرع یاد آ رہا ہے:

مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی، ستم گروں کی پلک نہ بھیگی

بہر حال وہ دن بھی آن پہنچا جس کا مغربی پاکستان کے مقتدر حلقوں کو برسوں سے انتظار تھا۔ 16دسمبر 1971کے دن کا سورج ڈوبا اور اس کے ساتھ مشرقی پاکستان بھی ڈوب گیا۔ مقتدر حلقوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ ان کی پیش گوئی بالآخر درست ثابت ہوئی۔ نیز کالے، ناٹے بنگالیوں کو سلیوٹ کرنے کا خدشہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ گیا۔ بے نوا، بے خبر اور بے سمجھ عوام نے دو دن آنسو بہائے، ماتم کیا۔ تیسرے دن دیگیں چڑھا دی گئیں اور مٹھائیاں بانٹی گئیں کہ اپنی حکومت بن رہی تھی۔

 رفتہ رفتہ ہم نے سونار بنگال کی یاد کو بھی دل و دماغ سے کھرچ ڈالا۔ بس ایک ہلکی سی ٹیس  دسمبر کی اس تاریخ کو اٹھتی تھی۔ تاہم دہشت گردوں نے اس کا مداوا بھی کر دیا۔ اب ہم سقوط ڈھاکہ کو یاد نہیں کیا کریں گے۔ بلکہ سانحہ پشاور کی یاد میں غمگین ہوا کریں گے۔ اے پی ایس کے معصوم، پھول جیسے بچوں کے خون کو یاد کرتے ہوئے کبھی ڈھاکہ یونیورسٹی کو بھی یاد کر لیا کیجیے جہاں جوان لاشے تڑپے تھے۔ اس درسگاہ پر دہشت گردوں کے کسی جنونی گروہ نے حملہ نہیں کیا تھا۔

اس قدر خون بہنے کے بعد کیا ہم غور کرنا پسند کریں گے کہ یہ سب کیوں کر ہوا۔ کیا ہم اگر مگر کیے بغیر دہشت گردوں کی مذمت کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم قائد اعظم کے وژن اور فرمان کے مطابق پاکستان کو جمہوری دستوری ریاست بنانے کا عزم کریں گے؟ کیا کہیں یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ عوام کے ووٹ کا احترام کیا جائے گا اور انھیں جاہل اور بے شعور کہہ کر گالی نہیں دی جائے گی؟ کیا ہم ایسی ریاست بنانے کو تیار ہیں جس میں مذہب اور عقیدے سے قطع نظر تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں؟

عقیدے اور آئیڈیالوجی پر مبنی ریاست بجائے خود دہشت گردی کا نشان ہوتی ہے۔ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے نہیں، جمہوری اقدار کی سربلندی سے دینا ہو گا۔ اختلاف اور تنوع کو برداشت اور قبول کرنا ہوگا۔ زندگی کی رنگا رنگی کو ختم کرکے اسے یک رنگ بنانے والوں کو رد کرنا ہوگا۔ اگر ہم یہ سب کچھ کرنے کو تیار نہیں تو پھول جنازوں پر ہی مہکیں گے۔

چھیالیس برس قبل جب یہ سانحہ ہوا تو پیارے دوست حسن سلطان کاظمی نے، جو اس وقت سال دوم کا طالب علم تھا، ایک نظم لکھی تھی۔ اس کا آخری بند یاد آ رہا ہے:

یہ دستور ہے ایک مدت سے ساتھی

کہ مل کے بچھڑنا، بچھڑ کے بھی ملنا

مگر اب ہمارے ہی مانوس چہرے

ہمارے لیے اجنبی ہو گئے ہیں

ہم ان کے لیے اجنبی ہو گئے ہیں

خود اپنے لیے اجنبی ہو گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).