زہریلے پھول اور تریاق


عابد محمود

\"abid شہباز تاثیر کی رہائی کے بعد سوشل میڈیا پر تاثیر قادری نزاع میں کچھ لوگ سلمان تاثیر کے والدین پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ ایم ڈی تاثیر کے نام کو نہایت ہی بھونڈے طریقے سے بگاڑا جا رہا ہے اور سلیمان تاثیر کی رشتہ داری سلمان رشدی سے ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تحریر کا مقصد نہ تو ایم ڈی تاثیر کے نام کی توجیہہ کرنا ہے اور نہ ہی یہ ثابت کرنا کہ سلمان تاثیر کی خالہ فیض احمد فیض کی بیوی ایلس فیض تھیں۔ بلکہ تاریخی تناظر میں فقط یہ دیکھنا مقصود ہے کہ بنیاد پرستی، عدم رواداری اور اختلاف رائے کا حق سلب کرنے کے بیانیے کی کسی بھی طرح کی حمایت کس طرح مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنی ہی ذات، کمیونٹی اور نسل کو نقصان پہنچاتی ہے۔

دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے سدھائے گئے ہاتھی بعض اوقات اپنی ہی صفوں کو روند ڈالتے ہیں۔ ایم ڈی تاثیر، نہ صرف غازی علم دین کمیٹی کے سرکردہ اراکین میں سے تھے بلکہ جنازہ کے انتظامات میں بھی پیش پیش تھے۔ حکومت وقت نے غازی علم دین کی میت اسی کمیٹی کی گارنٹی پر ان کے ورثا کے حوالے کی تھی۔

پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کا دفاع کرنے والوں میں اس وقت کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کا نام سر فہرست تھا۔ اس وقت شاید سر ظفر اللہ کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں ہو گا کہ کل کو یہی قرارداد ان کی پوری کمیونٹی کو احمدی سے غیر مسلم بنانے کے لیے بنیاد مہیا کرے گی۔

اپنے باغ میں زہریلے پھول پودے اگانے کا انجام گھر میں بسنے والے بچوں کو زہر سے موت کے گھاٹ اتارنے یا زہریلی پرورش کر کے انہیں زہریلا بنانے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ریپکسنی کی بٹیا کیطرح ایسے بچوں کی صحبت میں رہنے والے بھی زہر آلود ہو جاتے ہیں اور آخر کار یہ زہر ہی ان کا جیون اور اس کا تریاق موت ثابت ہوتا ہے۔

معتزلہ نے مذہب کی جس تعبیر کی اساس پر اپنے مخالفین کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے  مختلف مظالم کا سلسلہ شروع کیا، اسی تشریح کی بنیاد پر اشاعرہ نے انہیں توہین مذہب کا ملزم ٹھہرا کر ان کا نام و نشان مٹا ڈالا۔

ایسے قوانین جن کی متعین معروضی تعریف نہ ہو اور فقط ایک یا چند افراد کے موضوعی ردعمل کی بنیاد پر جن کی تشریح کی جائے، جس میں مقدمے کے دوران مدعی اور گواہان اسی جرم کے الزام کے ڈر سے ملزم کے الفاظ اپنی شہادت میں از سر نو بیان نہ کر سکیں، کی حمایت اور وکالت کرنے کا مطلب پورے سماج کو ایسے افراد کے نظریات کی بھینٹ چڑھانا ہے۔ ایسے قوانین و مظاہر کی تائید کرنے والوں کو یہ بات شاید یاد نہیں رہتی کہ ان کی اپنی کمیونٹی اور بچے بھی اسی سماج کا لازمی جزو ہیں۔ ریاست کو کسی بھی ایسے قانون کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے جس کی بنیاد پر کسی فرد یا گروہ کو مذہبی،نسلی یا سیاسی تشخص کے حوالے سے باقی ماندہ معاشرے سے کاٹا جا سکے ورنہ یہی ہو گا کہ ایک فرقہ دوسرے کو روافض کہہ کر مارے گا اور دوسرا پہلے کو نصیری کہہ کر قتل کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments