اہل کشمیر نے تعلیم کا میدان جنگ چن لیا


مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ میرے بچپن کے ایام تھے جب میں غالبا سکول ابھی ابھی جانا شروع ہوا تھا۔ آزاد کشمیر میں جہادی کلچر عام تھا۔ گولی اور بندوق بچوں سے بزرگوں تک سب ہی کا برابر موضوع گفتگو تھا۔ نا صرف اس موضوع پر دن رات گفتگو ہوتی بلکہ ریاست کی طرف سے اور پرائیویٹ طور پر بھی صالحین جماعت کے زیر اثر عملی جہاد میں شرکت کا بھرپور بندوبست بھی یقینی بنایا گیا تھا۔ پاکستان میں اس زمانے میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں دن اور رات کی طرح باہم تبدیل ہوتی تھیں۔ آزاد کشمیر میں سردار عبدالقیوم خان اور سردار سکندر حیات خان ہمارے مستقبل کے فیصلہ ساز تھے۔ سکول کے بچوں میں جہادی روح پھونکنے کا بیڑا امیر جماعت اسلامی عبدا لرشید ترابی کے سر تھا۔ ہم اس وقت پاکستان کے پسماندہ ترین علاقے کے شہری تھے جنھیں تعلیم کی اشد ضرورت تھی کیونکہ ہمارا مستقبل غیر یقینی کی صورت حال سے دو چار تھا۔ ہم من حیث القوم جنگ و جدل میں دھکیل دیئے گئے کہ اب ہمارا مستقبل صرف بارود سے ہی طے کیا جا سکتا تھا۔ سکولوں میں جلسے جلوس ہوتے۔ بھارت مخالف نعرے بازی۔ جیوے جیوے پاکستان۔ کشمیر بنے گا پاکستان۔ جہاد فی سبیل اللہ الجہاد الجہاد ۔۔۔ اس وقت کے پاپولر نعرے تھے۔

کوٹلی اور نکیال ننھے مجاہدین کی تربیت کے مراکز تھے جہاں سکول جانے والے لڑکوں کو بھی بھیجا جاتا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ منظر آج بھی اسی طرح ایک وڈیو کلپ کی صورت میں محفوظ ہے جس میں ہمارے سکول میں منعقدہ ایک جلسے سے امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر اسٹیج پر کھڑے ہو کر جہاد کیلئے نقد بھرتیوں کا اعلان فرما رہے تھے۔ ننھے طلبہ ہاتھ اٹھا کر جام شہادت نوش کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔ کئی طلبہ نے اس موقع کو سکول کی سختیوں اور پڑھائی سے چھٹکارے کا نادر موقع جان کر نقد بھرتی لی اور سیدھے کوٹلی جا پہنچے۔ میرا خود بھی سکول کے جیل سے جان چھڑانے اور کشمیر کے جنگلوں اور پہاڑوں پر بندوق کمر سے لٹکا کر گھومنے کا نیک جذبہ بیدار ہو چکا تھا (الحمداللہ)۔ مگر بدقسمتی آڑے آئی کہ ابھی صالحین کے مطابق میں جوان نہیں تھا۔

ہم کس کی جنگ لڑ رہے تھے؟ کیوں لڑ رہے تھے؟ تقسیم ہندوستان 1947 میں ہوا مگر 1990 کی دہائی میں اچانک سے تقسیم ہند میں ہونے والی زیادتی کسے اور کیونکر یاد آ گئی؟ پھر جنگ ہی واحد آپشن کیوں؟ اور پھر ایسی کون سی ہنگامی صورت حال بپا ہوئی کہ قوم کے وہ معمار جن کی تربیت ابھی اہل فکر اور حکمرانوں نے کرنی تھی انھیں سکولوں کی بجائے حرکت المجاہدین اور حزب المجاہدین کے تربیتی کیمپوں کی راہ دکھائی گئی؟ اور پھر جنگ جیتی کیوں نہیں گئی؟ پسپائی کیوں اختیار کی گئی؟ یہ وہ تمام تر سوالات ہیں جو آج میرے دل و دماغ میں اچانک سے برپا ہوۓ…خیر چھوڑئیے یہ سب۔ خبر یہ ہے کہ الف اعلان نے پورے پاکستان سے ایک سروے کیا ہے جس بنا پر مختلف علاقوں اور اضلاع کے تعلیمی انڈیکس کو شائع کیا گیا ہے۔ بندوق اور گولی والی قوم نمبر ون پر آئی ہے۔ جی ہاں آزاد کشمیر تعلیمی انڈیکس میں 72۔ 95 یعنی 73 پوائینٹس کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ فاٹا 49۔ 01 پوائنٹس کے ساتھ آخری (8ویں) نمبر پر ہے جس کی وجوہات تلاش کرنے کی قطعا ضرورت نہیں…

بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ کشمیریوں نے اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی بیسویں صدی اور اس کی فرسودہ روایات سے جان چھڑا لی ہے۔ اب ہمارے سکولوں میں بندوق اور گولی موضوع گفتگو نہیں رہے۔ گو کہ صالحین کی جماعتیں اب بھی ریاست میں موجود ہیں تاہم کشمیری قوم کے سواد اعظم نے انہیں مسترد کردیا ہے۔ اب مائیں اپنے بچوں کو کوٹلی بھیجنے کی بجائے سکولوں، کالجوں اور جامعات میں بھیجنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ دشمن سے مقابلے کے لئے گھوڑے آج بھی تیار کیے جا رہے مگر اب میدان جنگ تعلیم ہے نا کہ کوہسار ہمالیہ۔ کشمیریوں کی بھارت سے جنگ آج بھی جاری ہے۔ جنگ ختم نہیں ہوئی البتہ میدان جنگ تبدیل کر لیا گیا ہے۔ ہمارا مستقبل آج بھی غیر یقینی کی فضا سے نکل نہیں سکا تاہم اب ہماری آنے والی نسل سیاسی۔ سماجی۔ سفارتی اور علمی محاذ پر پہلے سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ اب ہم مکالمہ کی طرف جا رہے ہیں۔ یورپ اور مغرب میں آج مکالمہ اور ڈائیلاگ ہی سیاسی تنازعات کو نمٹانے کا واحد فورم ہیں۔ مکالمہ ہی جنوبی ایشیاء کا مستقبل ہے۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ ہم ہر محاذ میں مغرب سے نصف صدی بعد گھسیٹے چلے آتے ہیں۔ جلد یا بدیر جب بھی مکالمے کا میدان سجے گا ہم سرخرو ہوں گے۔ انشاءاللہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).